شام اور ترکیہ کے تعلقات اُس وقت سے تناؤ کا شکار ہیں جب سے انقرہ 12 سالہ خانہ جنگی کے دوران بشار الاسد کی سیاسی اور مسلح اپوزیشن کا ایک بڑا حمایتی بن گیا اور اس نے شمال کے بڑے حصوں میں اپنی فوجیں بھیجی تھیں۔
روس، دمشق اور انقرہ کے درمیان مفاہمت کی ثالثی کر رہا ہے۔ ماسکو نے گذشتہ ماہ اپنے وزرائے دفاع کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی تھی۔ ان مذاکرات کا مقصد وزرائے خارجہ اور پھر صدر اسد اور رجب طیب اردوغان کے درمیان ملاقاتوں کی راہ ہموار کرنا تھا۔
بشار الاسد نے دمشق میں روسی صدر کے ایلچی الیگزینڈر لاورینتیف سے ملاقات کی اور کہا کہ ترکیہ کے ساتھ بات چیت ’شام کی سرزمین پر قبضے کو ختم کرنے‘ اور ترکیہ کی حمایت (جسے وہ دہشت گردی قرار دیتا ہے) کو روکنے کے مقاصد پر مبنی ہونی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ملاقاتوں کو ’شام اور روس کے درمیان پہلے سے مربوط ہونا چاہیے تاکہ شام کی طرف سے مطلوبہ ٹھوس نتائج حاصل کیے جا سکیں۔‘
2011 میں شام کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے انقرہ اور دمشق کے درمیان اعلیٰ ترین سطح کے مذاکرات کے لیے وزرائے خارجہ مولود چاوش اوغلو اور فیصل مقداد کی فروری کے اوائل میں ملاقات متوقع ہے۔
شام کے دوسرے اہم اتحادی ایران کی طرف سے مصالحت کو قریب سے دیکھا جا رہا ہے۔
وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے جمعے کو کہا کہ ان کا ملک شام اور ترکی کے درمیان ہونے والی بات چیت سے خوش ہے۔
امیرعبداللہیان فیصل مقداد سے بات چیت کے لیے سنیچر کو دمشق جائیں گے۔