Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈرامہ بختاور: ’ساس بہو کا جھگڑا اور شادی ہی عورت کا مسئلہ نہیں‘

ڈرامے میں سیاستدانوں کے دہرے معیار سمیت مختلف مسائل کو اجاگر کیا گیا۔ فوٹو: انسٹا یمنیٰ زیدی
اکیلی عورت کو اپنے گھر، خاندان اور معاشرے سمیت ہر کسی کے طنز و طعنے برداشت کرنے پڑتے ہیں خواہ وہ عورت شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔
ہمارے ارد گرد ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے جو آج کے دور میں بھی عورت کو کم تر سمجھتے ہیں اور اگر عورت غیر شادی شدہ ہو تو بات طنز و طعنے سے آگے نکل کر بہتان تراشی تک جا پہنچتی ہے۔
ان سب کے باوجود معاشرے میں عورتیں گھر سے باہر بھی نکلتی ہیں، کام بھی کرتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ زمانے کا سخت رویہ بھی برادشت کرتی ہیں۔ لیکن اس سخت معاشرے میں بعض اوقات کچھ عورتیں ہمت ہار جاتی ہیں یا پھر وہ اپنا حلیہ تبدیل کر لیتی ہیں جس میں وہ خود کو محفوظ سمجھتی ہیں۔
لیکن دراصل معاملہ صرف عورت کا نہیں بلکہ معاشرے کی سختیاں عورت اور مرد دونوں کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔  
حال ہی میں اداکارہ یمنیٰ زیدی کا ڈرامہ بختاور اپنے اختتام کو پہنچا ہے جس میں یمنیٰ زیدی نے بختاور نامی ایک ایسی نوجوان لڑکی کا کردار ادا کیا جو اپنے گھریلو مسائل اور مشکلات کو ختم کرنے کے لیے کوششیں کرتی ہیں۔
ڈرامہ نادیہ اختر نے لکھا ہے اور اسے مومنہ درید نے پروڈیوس کیا ہے جبکہ ڈرامے کی کاسٹ میں یمنٰی زیدی، زاویار نعمان اعجاز، ثاقب سمیر، شمعون عباسی، میزنا وقاص اور نورین گلوانی شامل ہیں۔

ڈرامے کی کہانی کیا تھی؟

لاہور کی رہائشی فرحین اشتیاق نے اپنی بیٹی کو پالنے اور لوگوں کی ہوس کا نشانہ بننے سے بچنے اور اپنی بچی کو بچانے کے لیے مرد کا روپ دھار لیا تھا اور یہ روپ وہ 9 سال تک دھارے رہیں۔
اسی روپ میں پہلے فرحین نے نوکری کی، پھرکچھ پیسے جمع کر کے انارکلی بازار میں اپنا چھوٹا سا کاروبار شروع کیا، جب حالات کچھ قابو میں آئے اور ان میں بہتری پیدا ہوئی تو فرحین نے اپنی کہانی دنیا کے سامنے پیش کی۔
اسی حقیقی کہانی سے متاثر ہوکر بنائے گئے ڈرامے کی ابتدا ہی وہاں سے ہوتی ہے جب بختاور کے والد جوئے کی بازی ہارنے کے بعد بختاورکی بڑی بہن کی شادی ایک بڑی عمر کے شخص سے کرا دیتے ہیں اور پھر وہ خود گھر سے غائب ہو جاتے ہیں۔
چھوٹا بھائی معذوری کی حالت میں بستر پر پڑے پڑے فوت ہو جاتا ہے جبکہ ماموں جیسے قریبی رشتہ دار بختاور کی ماں سے مالی کفالت کے بدلے اپنے ذہنی معذور بیٹے کے لیے بختاور کا رشتہ مانگتے ہیں۔
اس صورتحال سے تنگ بختاور تعلیم حاصل کر کے دنیا کو کچھ کر دکھانے کی چاہ رکھتی ہے لیکن اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے پر اپنی ہی برادری میں بختاور کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے اور خاندان کے مردوں سے زیادہ عورتوں نے ہی ایسے حالات پیدا کر دیے کہ بے سہارا لڑکی ایک دوست کی مدد سے اپنی ماں کے ساتھ شہر بھاگ جاتی ہے۔
اس کے بعد بختاور کو پہلی بار اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دنیا تو مردوں کی ہے جس میں مردوں کے بغیر دو عورتوں کا گزارہ مشکل ہے تاہم اکیلی عورت ہو یا مرد، شہر میں دونوں کو کرائے پر مکان حاصل کرنے میں مشکالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس طرح شہر آنے کے بعد سب سے پہلے کرائے کا مکان حاصل کرنے اور نوکری کی تلاش کے دوران چند خوفناک واقعات بختاور کو مردانہ حُلیہ اپنانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

یمنیٰ زیدی کے مطابق بختاور ایک ایسا مضبوط درخت تھا جو تنہا کھڑا تھا۔ فوٹو: سکرین گریب

لیکن معاملہ یہاں بھی حل نہیں ہونا تھا کیونکہ عورت ہوتے ہوئے مرد کا حلیہ اپنانے کے جھوٹ کے ساتھ گاڑی زیادہ دور تک نہیں جاسکتی تھی اور تو اور بختاور کو ان مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن کا سامنا مردوں کو کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ان سب کے باجود وہ اپنے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ہر مظلوم کے درد کا احساس رکھتی ہے۔
بلآخر بختاور پدرشاہی معاشرے سے لڑتے لڑتے اپنے اصل حلیے میں واپس آنے پر مجبور ہو جاتی ہے لیکن ان سب کے بعد بھی وہ اپنی زندگی کے کڑوے تجربات سے دوسری عورت کو یہ سبق دینا چاہتی ہے کہ اپنے حق کے لیے آواز اُٹھائیں کیونکہ عورت کمزور نہیں ہے۔
بختاور کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ یمنیٰ زیدی نے جس خوبصورتی سے کردار میں ڈوب کر اپنی فنکارانہ صلاحیت کو پیش کیا ہے وہ واقعی قابل تعریف ہے۔
ڈرامے کے اختتام پر اداکارہ یمنٰی زیدی نے ایک بیان میں کہا کہ میرے نزدیک بختاور ایک ایسا مضبوط درخت تھا جو تنہا کھڑا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس پروجیکٹ کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر بھی یہ ڈرامہ کسی بھی فینسی سیٹ اپ، رومانوی گانے یا عام خاندانی سیاست کے بغیر شائقین کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔
اداکارہ نے کہا کہ وہ اس ڈرامے کو بنانے اور ایک بڑا خطرہ مول لینے اور اس مشکل ترین سفر کو تھوڑا آسان بنانے کے لیے ڈائریکٹر کی مشکور ہیں۔
ڈرامے میں زاویار نعمان اعجاز، ثاقب سمیر اور شمعون عباسی نے بھی اپنے کرداروں کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے البتہ عدنان شاہ ٹیپو کے کردار میں کوئی منفرد چیز دیکھنے کو نہیں ملی۔
شمعون عباسی کا اردو نیوز سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’جب ہم کوئی بھی کردار ادا کرتے ہیں تو ہم کسی نہ کسی شخص کی عکاسی کر رہے ہوتے ییں اور اس شخص کا تعلق کسی نہ کسی محکمے سے ہوتا ہے۔ میں اس بات کا کریڈیٹ رائٹر اور ڈائریکٹر کو دینا چاہوں گا جنہوں نے پولیس کو مثبت انداز میں پیش کیا اور اس سے ہماری خواتین کا پولیس پر اعتماد بڑھے گا۔‘

 ڈرامے میں یمنیٰ زیدی نے ایک مضبوط خاتون کا کردار ادا کیا ہے۔ فوٹو: انسٹا یمنیٰ زیدی

ان کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کے ڈراموں کو ہمیشہ شائقین بہت پسند کرتے ہیں۔ اس ڈرامے میں ہر طرح کے طبقے کو دکھایا گیا ہے۔ بہت زیادہ غریب سے لے کر بہت زیادہ امیر آدمی تک کی کہانی دکھائی گئی کہ وہ کیسے سوچتے ہیں۔‘
شمعون عباسی نے مزید کہا کہ آج کے دور میں جہاں ہم ڈراموں میں نفرتیں دیکھ رہے ہیں وہاں بختاور ڈرامے نے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔
اس ڈرامے نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ عورت کے مسائل ساس بہو کی لڑائی، اور شادی بیاہ کے لیے کسی مرد کے پیچھے بھاگنا نہیں جو اکثر ڈراموں میں دِکھائے جاتے ہیں۔
ڈرامے میں سیاستدانوں کے دہرے معیار سمیت بہت سے مسائل کو اٹھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی والدین کی اہمیت، عورت کے حقوق اور پولیس کے مثبت چہرے کو بھی اجاگر کیا گیا۔
اس ڈرامے میں خواتین کے لیے بہت اچھا پیغام تھا کہ خواتین چاہیں تو وہ معاشرے کی تبدیلی کے لیے ایک اچھا کردار ادا کرسکتی ہیں لیکن انہیں اپنے حق کے لیے خود آواز اُٹھانا ہوگی۔
ڈرامے میں روایتی شادی بیاہ کے موضوع سے ہٹ کر ترقی پسند سوچ کو دکھایا گیا جس میں لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کو شادی کرنے پر ترجیح دی گئی جو یقیناً ہمارے معاشرے کے لیے ایک مثبت پیغام ہے۔
ڈرامے کا اختتام شاندار کیا گیا کیونکہ بختاور ایک امیر آدمی کے بجائے ایک ایسے آدمی کا انتخاب کرتی ہے جو اسے سپورٹ کرتا ہے حالانکہ بہت سے شائقین کی خواہش تھی کہ اختتام پر دلاور اور بختاور کی شادی ہونی چاہیے تھی۔
بختاور صرف اپنے کیریئر کے بارے میں نہیں سوچتی بلکہ اس کا مقصد معاشرے کی سوچ میں تبدیلی بھی لانا تھا۔

رائٹر نے روایتی انداز سے ہٹ کر اچھے پیغام کے ساتھ ڈرامے کا اختتام پیش کیا۔ فوٹو: ہم ٹی وی

اگر دیکھا جائے تو اس ڈرامے میں گذشتہ سال کے مقبول ترین ڈرامے پری زاد کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے یعنی ایک ایسی شخصیت جسے زمانے کی جانب سے دھتکارا گیا اور شہرت کے حصول کے بعد سب اس کی واہ واہ میں لگ جائیں۔
ڈرامہ پری زاد میں بھی صبورعلی نے ایسا ہی ایک روپ دھارا تھا جو لڑکوں سے مقابلہ کرنے کے لیے انہی کا انداز اپنا لیتی ہے۔
ماں ہو یا بیٹی، عورت اپنے ہر روپ میں بہت مضبوط اور ہمت والی ہے لیکن زمانہ اکیلی عورت کو جینے کا حق نہیں دیتا۔ ہمارے معاشرے میں ایک عورت کا اکیلا رہنا کتنا دشوار ہے اس پر تو بہت بار بات کی جاتی ہے لیکن ایک سبق جو ڈرامے سے ملتا وہ یہ کہ بختاور کو مرد کا حلیہ اپنانے کے باوجود مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ ہمارے معاشرے میں نہ صرف عورت بلکہ مردوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شیئر: