جب امام محمد بن سعود نے 1725 میں والد کی وفات کے بعد خود کو تاریخ کے میدان میں کھڑا پایا تو اس وقت بہت کم لوگ ہی یہ اندازہ لگا پائے تھے کہ وسطی عرب کی قسمت میں کون سی تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں، جو امارت درعیہ کے اگلے حکمران کے ہاتھوں ہوں گی۔
1679 میں درعیہ میں پیدا ہونے والے امام محمد نے ایک ایسی دنیا میں قدم رکھا تھا جس میں کئی سو سال سے کچھ خاص نہیں بدلا تھا۔
اپنے تزویراتی محل وقوع اور بڑے تجارتی راستوں کے علاوہ حج کے روٹس پر واقع ہونے کے باعث درعیہ ایک اہم شہر تھا لیکن وہ بھی چھوٹے شہروں کی طرح ایک لگے بندھے سلسلے میں چل رہا تھا۔
مزید پڑھیں
-
یوم تاسیس، مملکت کی’ گہری جڑوں‘ پر فخر ہے: سعودی کابینہNode ID: 744926
-
سعودی فاؤنڈیشن ڈے پر سعودی ٹیچر کے فن پارے کی مقبولیتNode ID: 745011
-
سعودی ریاست جسے بنانے اور سنوارنے میں تین صدیاں لگیںNode ID: 745021