Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہنگائی 48 سال کی بلند ترین شرح پر، ’ایک سال تک ریلیف ملنے کا امکان نہیں‘

پاکستان کی کم و بیش 50 فیصد آبادی مہنگائی سے بری طرح متاثر ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
’میرے میاں ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرتے ہیں اور آمدن بھی مناسب ہے لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران اس آمدن میں کمی ہوئی نہ اضافہ لیکن پہلے کی نسبت اب آدھا مہینہ ہاتھ شدید تنگ رہنے لگا ہے۔ گھر کے چھ افراد کے لیے مہینے بھر کی جو گروسری پچیس تیس ہزار میں آتی تھی وہ اب ساٹھ پیسنٹھ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔‘
یہ کہنا ہے اسلام آباد کی رہائشی خاتون خانہ نبیلہ نعیم کا جو مہنگائی کا رونا روتے ہوئے بجٹ سے زیادہ اخراجات اور میاں کی آمدن میں رہتے ہوئے موجودہ مہنگائی کا سامنا کرنے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں۔
وہ اس مہنگائی سے متاثر ہونے والے واحد گھرانے سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ ملک کی کم و بیش 50 فیصد آبادی شدید مہنگائی سے بری طرح متاثر ہے۔
ماہرین کے مطابق اگلے ایک سال تک آمدن میں اضافے اور مہنگائی میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے، اس لیے لوگوں کو اپنے لائف سٹائل میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنی ترجیحات کو از سر نو ترتیب دینا ہوگا۔
اردو نیوز سے گفتگو میں نبیلہ نعیم کا کہنا تھا کہ ’میرے میاں کی ایک تنخواہ میں ہم اچھا گزارہ کر رہے تھے بلکہ بچت بھی کر لیتے تھے۔ لیکن گزشتہ ایک سال میں مہنگائی نے ساری منصوبہ بندی پر پانی پھیر دیا ہے۔ گھر کے باورچی خانے کے اخراجات کے علاوہ بجلی گیس کے بل اور پٹرول کا خرچہ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ جس سے ہاتھ تنگ ہونے سے بات آگے بڑھ گئی ہے۔‘ 
پاکستان میں مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کرنے والے ادارے شماریات ڈویژن کے مطابق مہنگائی سال کی ریکارڈ شرح تک پہنچ گئی ہے۔ مہنگائی کی مجموعی شرح 31.55 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے پہلے اپریل 1975 میں مہنگائی کی شرح 29.3 فیصد تھی۔
اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ آٹھ ماہ یعنی جولائی 2022 تا فروری 2023 کے دوران مہنگائی کی شرح 26.19 فیصد ریکارڈ ہوئی۔

پاکستان میں مہنگائی 48 سالوں کی بلند ترین سطح پر ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ادارہ شماریات کا بتانا ہے کہ ایک سال میں پیاز 416.74 فیصد، چکن 96.86 فیصد، انڈے 78.73 فیصد، چاول 77.81 فیصد، دال مونگ 56.43 فیصد مہنگی ہوئی۔ دال مونگ 56.43 فیصد، دال چنا 55.99 فیصد، آٹا 55.92 فیصد مہنگا ہوا، ایک سال میں کوکنگ آئل 50.66 فیصد، خوردنی گھی 45.89 فیصد اور سبزیاں 11.60 فیصد مہنگی ہوئیں۔
مہنگائی کی شرح کے تناسب سے دیکھا جائے تو اگر کسی گھرانے کی آمدن 30 ہزار روپے تھے تو ایک سال میں اس مہنگائی کی وجہ سے اب اس کی آمدن کی قدر 20 ہزار 500 رہ گئی ہے۔ 
لیکن حکومت نے اس مہنگائی کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کے بجائے جہاں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا وہیں رمضان پیکیج کے ذریعے یوٹیلیٹی سٹورز پر دیے جانے والے رمضان ریلیف پیکیج میں کمی کر دی ہے۔ 
پچھلے مالی سال یعنی 10 ماہ میں مہنگائی کی اوسط شرح 11 فیصد جبکہ رمضان ریلیف پیکیج 8 ارب روپے کا تھا لیکن اس سال جولائی تا اپریل مہنگائی کی اوسط شرح 26 فیصد سے زیادہ لیکن رمضان ریلیف پیکیج کے لیے صرف 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
رمضان ریلیف پیکیج کا 20 مارچ سے آغاز ہوگا۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر19 بنیادی اشیاء پر 5 ارب کا پیکیج 2 طبقات میں تقسیم کیا جائے گا۔ بی آئی ایس پی 1 ارب 15 کروڑ، عام صارفین کو 3 ارب 84 کروڑ روپے کی سبسڈی ملے گی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سرمایہ کاری کے لیے ساز گار ماحول کی ضرورت ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

معاشی تجزیہ کار شہباز رانا نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’مہنگائی کی موجودہ شرح نے پاکستان کی 50 فیصد آبادی کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور دیگر وجوہات کی وجہ سے لوگوں کو اپنے اخراجات اور غیر ضروری اخراجات کو کم کرنا پڑ رہا ہے۔‘ 
انھوں نے کہا کہ فی الحال کسی قلیل مدتی یا وسط مدتی منصوبہ بندی کے علاوہ کسی قسم کے ریلیف کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔
’پاکستان آئی ایم ایف سے فی الحال نہیں نکل سکے گا۔ اسی وجہ سے بعض معاشی اقدامات لینا پڑیں گے اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ واحد حل یہی ہے کہ لوگوں کو اپنی بچت کی قربانی دے کر اپنی ضروریات کی بھی ترجیحات طے کرنا پڑیں گے۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘
معاشی تجزیہ کار نعیم الحق نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ مہنگائی ہمیشہ حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوتی ہے، حکومتیں سرکاری اخراجات کم کرنے کے بجائے بڑھاتی ہیں اور مسلسل بڑھاتی رہتی ہیں جس وجہ سے بوجھ عوام پر پڑتا ہے اور بھگتنا قوم کو پڑتا ہے۔ 
انھوں نے کہا کہ ملک میں مسئلہ صرف مہنگائی کا ہی نہیں بلکہ سرمایہ کاری نہ ہونے کا بھی ہے۔ 
’لوگ ڈر کے مارے سرمایہ نہیں کرتے کہ کرپٹ اور ٹیکس چور کہہ کر ان کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ لوگوں کو یہ یہ حق دیں کہ جو پیسے لگائے اسے پیسے بنانے کا اختیار بھی دیں۔ صرف سرکاری نوکری کو ہی اہمیت دینے کا رواج ختم ہونا چاہیے۔‘

 مہنگائی کی مجموعی شرح 31.55 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

تجزیہ کار نعیم الحق نے کہا کہ مہنگائی روکنا اس وقت تقریباً ناممکن ہے اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری آسان کر دیں تاکہ تاکہ لوگوں کو روزگار ملے اور ان کی آمدن میں اضافہ ہو۔ 
معاشی ماہر شکیل احمد کا کہنا ہے کہ جہاں ایک طرف لوگوں کی قوت خرید کم ہوگئی ہے تو دوسری طرف حکومتی اقدامات بھی عوام کے حق میں نہی ہیں۔
’رمضان ریلیف پیکیج کو دیکھیں تو اس سال کم از کم 15 سے 20 ارب روپے کا ریلیف پیکیج ہونا چاہیے تھا تاکہ غریب کو اس کمر توڑ مہنگائی سے تحفظ دیا جا سک لیکن حکومت نے اس میں کمی کرکے بظاہر ریلیف دیا ہے لیکن درحقیقت یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔

شیئر: