پاکستان کی سپریم کورٹ میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس کے فیصلے میں چیف جسٹس اور دیگر ساتھی ججز سے اختلاف کرنے والے دونوں ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
اپنے فیصلے میں دونوں ججز نے قرار دیا ہے کہ از خود نوٹس کا فیصلہ چار اور تین کی اکثریت سے آیا۔
از خود نوٹس مسترد کرنے والے جج صاحبان میں جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
-
-
-
پارلیمنٹ کا ہنگامہ خیز مشترکہ اجلاس، پی ٹی آئی کی واپسی
Node ID: 753581
پیر کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے فیصلے میں دونوں ججز نے کہا کہ صوبوں میں انتخاب کا معاملہ متعلقہ ہائی کورٹ کو دیکھنا چاہیے۔ از خود نوٹس کیس میں چار جج صاحبان کا فیصلہ اکثریتی مانا جائے گا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چار جج صاحبان نے از خود نوٹس کی کارروائی مسترد کی۔ ہم جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے 23 فروری کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔
فیصلے میں لکھا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔ از خود نوٹس کی کارروائی ختم کی جاتی ہے۔ ہائی کورٹ زیر التوا درخواستوں پر تین روز میں فیصلہ کرے۔
ججز نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ چیف جسٹس آفس کا ون مین شو کا لطف اٹھانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ججز کو ان کی مرضی کے برعکس بنچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں۔ دو معزز ججز نے اپنا فیصلہ دیتے ہوئے بینچ میں رہنے یا نہ رہنے کا معاملہ چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑا۔ بینچ سے نکالے جانے والے دونوں ججز کا فیصلہ حتمی فیصلے میں شامل ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/March/36511/2023/capture_0.jpg)
ججز کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے پاس از خود نوٹس لینے، سپیشل بینچز بنانے کے وسیع اختیارات ہیں۔ ان اختیارات کی وجہ سے سپریم کورٹ پر تنقید اور اس کی عزت و تکریم میں کمی ہوتی ہے۔ اب صحیح وقت ہے ایک شخص کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے۔
خیال رہے کہ اس معاملے پر یکم مارچ کو چیف جسٹس آف پاکستان نے فیصلہ سناتے ہوئے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات 90 دنوں میں کرانے، جب کہ پنجاب میں صدر کی دی ہوئی تاریخ کو آئینی طور پر درست قرار دیتے ہوئے گورنر خیبر پختونخوا کو صوبے میں فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دینے کا بھی حکم دیا تھا۔
اس وقت جاری کیے گئے مختصر تحریری فیصلے کے آخر میں جہاں تمام ججز کے دستخط موجود ہیں وہاں ایک جج نے لکھا ہے کہ ’میں نے الگ سے فیصلہ تحریر کیا ہے‘ جبکہ دوسرے جج نے لکھا ہے کہ ’میں نے اس فیصلے ساتھ الگ سے نوٹ لکھا ہے۔‘
چیف جسٹس نے عدالت میں دونوں معزز جج صاحبان کے اختلافی نوٹ بھی پڑھ کر سنائے اور کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھے ہیں۔
اختلافی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت یہ کیس قابل سماعت نہیں۔ عدالت کو اپنا 184/3 کا اختیار ایسے معاملات میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
دونوں ججز نے کہا کہ وہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کے نوٹس سے اتفاق کرتے ہیں۔ اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابات پر ازخود نوٹس کی کارروائی نہیں بنتی جب کہ دائر درخواستیں بھی مسترد کرتے ہیں۔
اس فیصلے کے فوری بعد حکومت کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا تھا اس میں وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ تین دو کا نہیں بلکہ چار تین کا ہے۔
اٹارنی جنرل شہزاد عطا الٰہی نے کہا کہ جب چیف جسٹس نے دو ججز کے اختلافی نوٹ پڑھے تو انہوں نے اس میں شامل حاشیے نہیں پڑھے۔ جسٹس منصور کے نوٹ کا دوسرا پیراگراف اہمیت کا حامل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ دو ججز کے نوٹ سے اتفاق کرتے ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/March/36511/2023/5szqhn2zwjk7fnm45x6uy7zrri1669193039-0.jpg)
انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹ کے حاشیے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہرمن اللہ کے نوٹ بھی کیس کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر وہ نوٹس اگر اس کیس کے ریکارڈ کا حصہ ہیں تو یہ تین دو کا نہیں بلکہ چار تین کا فیصلہ ہے۔
اٹارنی جنرل کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کو پڑھنے اور اس کا جائزہ لینے کے بعد ہمارا موقف ہے کہ انتخابات کے حوالے سے دائر درخواستیں چار تین کے تناسب سے مسترد ہوگئی ہیں اور اس حوالے سے لیا گیا از خود نوٹس بھی درست نہیں تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دونوں ہائی کورٹس میں درخواستیں ابھی تک زیرسماعت ہیں۔ کوئی بھی انتخابات سے نہیں بھاگ رہا۔ ایک آئینی نکتے نے سر اٹھایا ہے جو آئینی اور قانونی بات ہے اور اب اس کا فیصلہ متعلقہ ہائی کورٹس ہی کریں گی۔‘
تاہم ملکی سطح پر چیف جسٹس کے سنائے گئے فیصلے کو ہی مانا گیا۔ ہائی کورٹس نے اپنی کارروائی ختم کر دی۔ الیکشن کمیشن نے صدر سے تاریخ لے کر پنجاب میں انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا جبکہ اسی فیصلے کی روشنی میں گورنر کے پی سے خط وکتابت بھی جاری رکھی۔
اب جب انتخابات کا معاملہ ایک بار پھر سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے اور سوموار کو ہونے والی سماعت کے دوران بھی بینچ کے ارکان کے دوران اس حوالے سے جملوں کا تبادلہ ہوا۔ ایسے میں دو ججز کے فیصلے میں یہ واضح طور پر کہہ دینا کہ فیصلہ تین دو کا نہیں چار تین کا ہے کی کیا قانونی اہمیت ہے؟
![](/sites/default/files/pictures/March/36511/2023/capture_2.jpg)