Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی نااہلی، کیا اسلام آباد کی ہواؤں کا رُخ بدل چکا؟

عبدالقیوم نیازی کے خلاف عدم اعتماد کے بعد تنویر الیاس وزیراعظم کشمیر کے بنے تھے (فائل فوٹو: فیس بک، تنویر الیاس)
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں تحریک انصاف کے وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی ہائی کورٹ سے نااہلی کے بعد سیاسی صورت حال غیریقینی کا شکار ہے۔
منگل کو کشمیر کے وزیراعظم ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلام آباد سے مظفرآباد پہنچے تھے اور انہوں نے ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہو کر عدالت کے بارے میں اپنے تبصروں پر غیرمشروط معافی مانگی تاہم عدالت نے ان کی نااہلی کا فیصلہ سنا دیا۔
اگلے روز بدھ کو تنویر الیاس خان کی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ میں نااہلی کے فیصلے کی خلاف اپیل دائر کی لیکن رجسٹرار نے پہلے یہ اعتراض لگا کر درخواست واپس کر دی کہ تنویر الیاس کے نام کے ساتھ ’وزیراعظم کیوں لکھا گیا ہے۔‘
ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ وزیراعظم کے ڈی ٹوٹیفائی ہونے کا حکم بھی ساتھ لائیں۔ جب دوسری مرتبہ سپریم کورٹ نے فُل بینچ کے سامنے درخواست لائی گئی تو تنویر الیاس کے نام کے ساتھ ‘وزیراعظم‘ لکھا دیکھ کر عدالت نے ایک کی تصحیح کی ہدایت کی۔ 
اس کے بعد تیسری بار صرف ’تنویر الیاس‘ نام لکھ کر جمع کروائی گئی سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کر لی اور کل (جمعرات) کو سابق وزیراعظم کے وکلا کو پیش ہونے کا حکم دیا۔
کیا وزیراعظم کو توہین عدالت کے نوٹس کے نتیجے میں نااہل قرار دے کر عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے؟ اس حوالے سے قانونی و آئینی ماہرین کی رائے منقسم نظر آ رہی ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ چونکہ سردار تنویر الیاس نے عدالت میں پیش ہو کر اپنا جرم تسلیم کیا ہے تو ظاہر ہے اس پر عدالت کارروائی کر سکتی ہے۔
اس فیصلے کے ناقدین کا خیال ہے کہ یہ زیادہ اچھی مثال نہیں ہے۔

’اچھی مثال نہیں لیکن عدالت کا حکم قبول ہے‘

پاکستان تحریکِ انصاف کشمیر کے جنرل سیکریٹری راجہ منصور خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ عدالت سے ہوا، یہ بہت زیادہ اچھی مثال نہیں تھی۔ تاہم ہم عدالتوں کے فیصلوں پر سرتسلیم خم کرتے ہیں۔‘
نئے قائد ایوان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف نے کسی بھی شخص تو نامزد کیا تو وہ آسانی سے جیت جائے گا کیونکہ اسمبلی میں ہمارے پاس واضح اکثریت ہے۔‘
’اپوزیشن پہلے دن سے عدم اعتماد کی باتیں کرتی رہی ہے لیکن انہیں کبھی بھی گارنٹی نہیں ملی۔ یہ اب بھی نمبر پورے کرنے کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہیں۔‘
کشمیر میں وزیراعظم کو عہدے سے ہٹائے جانے میں اسلام آباد حکومت یا کسی خفیہ ہاتھ کے ممکنہ کردار پر منصور خان کا کہنا تھا کہ ‘میرا نہیں خیال کہ ایسا کچھ ہے۔‘
ماضی میں حکومتیں گرانے میں قانون ساز اسمبلی کی مہاجرین مقیم پاکستان کی نسشتوں کا کافی اہم کردار رہا ہے۔ جب بھی عدم اعتماد کے لیے نمبر گیم شروع ہوئی تو سب کی نگائیں ان اراکین کی جانب اٹھتی تھیں۔
تاہم اب کی بار صورت حال ذرا مختلف ہے۔ پی ٹی آئی کشمیر کے جنرل سیکریٹری کا کہنا تھا کہ ’مہاجرین مقیم پاکستان کے پنجاب سے 9 ارکان تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ انہیں اپنے حلقوں میں عمران خان کی مقبولیت کا اندازہ ہے۔ اس لیے وہ کہیں نہیں جائیں گے۔‘

سسٹم میں دراڑیں پڑ چکی ہیں: سردار عتیق احمد

کشمیر میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم کانفرنس کے سربراہ اور کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آزادکشمیر میں توہین عدالت کی بنیاد کو وزیراعظم کو نااہل کرنے کا قانون ہی نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہاں کے قانون کے مطابق کسی رکن اسمبلی کو نااہل کرنے کی کارروائی اس وقت شروع کی جا سکتی ہے جب اسے دو برس کی سزا سنائی گئی ہو۔ اس صورت میں اگر عدالت کارروائی کرنا چاہے تو وہ سپیکر اسمبلی کو لکھے گی جو اس کے بعد الیکشن کمیشن سے رابطہ کرے گا۔‘

سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ وزیراعظم کی نااہلی کے اقدام کو سراہا جانا قابل افسوس ہے (فائل فوٹو: فیس بک پیج، سردار عتیق)

سردار عتیق احمد نے کہا کہ ’بعض اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے اس فیصلے کو سراہنا قابل افسوس ہے۔ کسی سے ذاتی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن ایسے اقدامات اداروں کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔‘
انہوں نے نئے قائد ایوان کے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ’کچھ کہا نہیں جا سکتا کیونکہ کل سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے اہم کیس کی سماعت مقرر ہے۔ اگر وہاں کچھ جماعتوں کی کشمیر میں رجسٹریشن منسوخ ہو گئی تو نیا سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے۔‘
’اس وقت صورت حال ایسی ہے کہ سسٹم میں بہت ساری دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ اس لیے پی ٹی آئی دوبارہ اپنا وزیراعظم لے آئے، یہ بہت آسان نہیں ہے۔‘

’یہاں فیصلے سیاست دان نہیں حالات کرتے ہیں‘

کشمیر کے سابق چیف جسٹس اور سینیئر قانون دان سید منظور حسین گیلانی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آزادکشمیر میں حکومتیں حالات کے زیراثر تبدیل ہوتی ہیں۔ ان کا اپنا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہاں حکومتوں کے بنانے یا گرانے کے فیصلے سیاست دان نہیں حالات کرتے ہیں۔‘
تنویر الیاس کو وزیراعظم آفس سے نکالنے میں خفیہ ہاتھوں کے کسی قسم کے کردار سے متعلق سوال کے جواب میں منظور گیلانی کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ اس میں وہ لوگ شامل ہیں۔ وہ پہلے سے ہی بہت الجھے ہوئے ہیں۔‘
واضح رہے کہ پاکستان کی زیرانتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اس وقت کل 53 میں سے 31 نشستیں تحریک انصاف کی ہیں جبکہ ایک نشست پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت مسلم کانفرنس کی ہے۔ بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ نواز کے پاس 7 جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس 12 نشستیں ہیں۔ جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے ایک نشست ہے۔ 
نئے قائد ایوان کے لیے اسمبلی میں ووٹنگ کی صورت میں بظاہر تحریک انصاف کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے اور یہ جماعت اپنا تیسرا وزیراعظم لانے کی پوزیشن ہے۔

کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں تحریک انصاف کو عددی اکثریت حاصل ہے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

جسٹس منظور گیلانی سمجھتے ہیں کہ ’اگر اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان اکٹھے رہے تو ان کا ہی وزیراعظم آئے گا۔ اگر ان کے کچھ لوگ ماضی کی طرح سیاسی وفاداریاں بدل گئے تو اپوزیشن کے امیدوار کی فتح ہو سکتی ہے۔‘

’پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار ایسا فیصلہ‘

عدالت سے ایگزیکٹو کے خلاف اس نوعیت کا فیصلہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔
کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے رکن سردار حسن ابراہیم نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم جوڈیشل ایکٹوزم پر یقین نہیں رکھتے لیکن اس معاملے میں تنویر الیاس کی اپنی بہت سی غلطیاں ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تنویر الیاس نے جس طرح عدلیہ کو تسلسل کے ساتھ چیلنج کیا اور جو گفتگو کی، وہ غلط طریقہ تھا۔ تاہم عدالت نے جو فیصلہ کیا اس پر قانونی ماہرین کی آراء مختلف ہیں۔‘
’ہم سیاسی لوگ ہیں۔ ہم تنویر الیاس کے سیاسی حریف ہیں اور سیاسی عمل ہی کے ذریعے حکومتوں سے متعلق فیصلوں پر یقین رکھتے ہیں۔‘

’خالد ابراہیم کیس سے موازنہ درست نہیں‘

ماضی میں کشمیر کی اسمبلی کے رکن سردار خالد ابراہیم کو اسمبلی میں کی گئی ایک تقریر کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا لیکن انہوں نے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
اس حوالے سے سوال پر حسن ابراہیم نے کہا کہ ’خالد ابراہیم کے ساتھ حالیہ اس معاملے کا موازنہ نہیں بنتا۔ انہوں نے ایوان میں بات کی تھی جسے آئینی تحفظ حاصل تھا اور بعد میں جب پانچ ججز فارغ ہوئے تو خالد ابرہیم کے موقف کی تصدیق ہو گئی تھی۔‘
’تنویر الیاس نے جو باتیں کیں وہ ناصرف غلط انداز میں کی گئیں بلکہ حقائق کے بھی برعکس تھیں۔‘

’عمران خان کی بڑی سیاسی غلطی‘

تجزیہ کار عامر محبوب نے کہا کہ ’تحریک انصاف آزادکشمیر میں بیرسٹر سلطان کو ایک طرف کر کے تنویر الیاس کو پارٹی صدر اور سردار عبدالقیوم نیازی کو وزیراعظم بنانا عمران خان کی بڑی سیاسی غلطی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سردار تنویر الیاس خان اس کی وقت کی عمران خان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا مشترکہ پروجیکٹ تھے۔ آزادکشمیر جغرافیائی طور پر ایک حساس علاقہ ہے۔ بدقسمتی سے اس حساس ریاست کو تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
حالیہ عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے عامر محبوب کا کہنا تھا کہ ’تنویر الیاس نے معاملات کو اس نہج پر خود لایا ہے۔ انہوں نے 90 سے زیادہ تو مشیر بھرتی کر رکھے تھے اور کچھ بااثر افراد بغیر کسی عہدے کے سرکاری گاڑیوں سے مراعات سے مستفید ہو رہے تھے۔ کوئی مالی ڈسپلن نہیں تھا۔‘
’جب آپ کی حکومت میں کئی طرح کے مسائل ہوں اور پھر آپ زبان سے بھی تکلیف دہ گفتگو کرنے لگیں تو بات زیادہ دیر تک قابل برداشت نہیں رہتی۔‘
کیا تحریک انصاف قانون ساز اسمبلی میں ووٹنگ کے ذریعے اپنا تیسرا وزیراعظم لانے میں کامیاب ہو جائے گی؟ اس پر عامر محبوب کا نقطۂ نظر مختلف ہے۔
’مجھے نہیں لگتا کہ تحریک انصاف اب اپنا وزیراعظم بنا سکتی ہے، گیم الٹ چکی اور چیزیں بظاہر ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ اب آج لاہور میں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں عمران خان وزیراعظم کے لیے جسے بھی نامزد کریں، شاید اس سے زیادہ فرق نہ پڑے۔‘
واضح رہے کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں نافذ عبوری آئین ایکٹ 1974ء کے تحت تنویر الیاس کے بنااہل ہونے کے بعد نئے قائد ایوان کے انتخاب تک  سینئر وزیر خواجہ فاروق احمد کو قائم مقام وزیراعظم بنایا گیا ہے۔

خواجہ فاروق احمد کو صدر ریاست نے قائم مقام وزیراعظم مقرر کیا (فائل فوٹو: فیس بک، خواجہ فاروق)

یہ حکم منگل اور بدھ کی درمیانی شب کشمیر کے ایوان صدر سے جاری ہوا۔ قائم مقام وزیراعظم کا فیصلہ عبوری آئین ایکٹ 1974 کے آرٹیکل 17 ون کے تحت کیا گیا ہے۔
اب نئے وزیراعظم کے لیے قانون ساز اسمبلی میں ووٹنگ کا شیڈول سپیکر چوہدری انوار الحق جاری کریں گے جبکہ اس حوالے سے اسمبلی کا اجلاس 13 اپریل کو ہو گا۔

شیئر: