سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اسے رجوع کر لیا ہے۔
بدھ کو تحریک انصاف نے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دینے کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم چیلنج کیا۔
پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں اپیل بیرسٹر علی ظفر کے توسط سے دائر کی۔
مزید پڑھیں
-
رینجرز کے ہاتھوں عمران خان کی گرفتاری کی قانونی حیثیت کیا ہے؟Node ID: 763291
-
عمران خان کی گرفتاری قانون کے مطابق ہے: اسلام آباد ہائی کورٹNode ID: 763301
عمران خان کی درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراض کیا کہ درخواست کے ساتھ دستاویزات بھی نامکمل ہیں۔
’عمران خان ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر سکتے ہیں۔‘
رجسٹرار آفس نے اعتراض کے ساتھ درخواست واپس کر دی۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ ’عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی قرار دی جائے۔
عمران خان کے خلاف مقدمات کی پولیس لائنز منتقلی کا نوٹیفکیشن بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اسد عمر کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور ریلی نکالنے پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے سابق وزیراعظم عمران خان کی پیشی کے موقع پر پارٹی قیادت نے کارکنان کو جوڈیشل کمپلیکس پہنچنے کی ہدایت کی تو انتظامیہ نے رات گئے عدالت کا مقام بدلتے ہوئے اسے پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں شفٹ کر دیا۔
پی ٹی آئی رہنما پولیس لائنز پہنچنا شروع ہوئے لیکن انھیں دھچکا اس وقت پہنچا جب معلوم ہوا کہ عمران خان کو رات گئے ہی پولیس لائنز میں موجود نیب سب جیل منتقل کیا جا چکا ہے۔
پولیس نے کشمیر ہائی وے اور نیسکام ہسپتال دونوں جانب سے پولیس لائنز کی طرف آنے والے راستے کو بند کر دیا جس کی وجہ سے کارکنان بھی نہیں پہنچ سکے۔
اس صورت حال سے خائف رہنماؤں نے پولیس لائنز کے اندر جانے کی کوشش کی تو پولیس نے ان کی گاڑیوں کو باہر ہی روک لیا اور پیشکش کی کہ وہ پولیس شٹل سروس میں ہی اندر جا سکتے ہیں۔
میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی، بابر اعوان اور دیگر رہنما کافی جارحانہ انداز اپنائے ہوئے تھے۔
پولیس کی جانب سے کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے بھرپور تیاری کی گئی تھی۔ سکیورٹی کے لیے 1500 سے زائد اہلکار پولیس ہیڈ کوارٹرز کے باہر تعینات کیے گئے تھے۔
