پاکستان کی وفاقی حکومت نے مالی سال 2023-24 کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے۔ اگرچہ بجٹ میں ملک کے تمام سیکٹرز کا احاطہ کیا جاتا ہے، لیکن اس مرتبہ موجودہ حکومت کا آخری بجٹ ہونے کے باعث سب سے زیادہ توجہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے، عوام کے لیے ریلیف اور نوجوانوں کے لیے اقدامات پر ہی تھی۔
بجٹ اجلاس کے موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس میں گہما گہمی تو ہوتی ہی ہے، لیکن اب کی بار شاہراہ دستور پر سرکاری ملازمین کے احتجاج کی وجہ سے یہ گہما گہمی پورے ریڈ زون میں محسوس کی جا سکتی تھی۔ ایوان کے اندر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے اگرچہ اپوزیشن کا وجود نہیں ہے مگر سرکاری ملازمین کے احتجاج کا اثر بہرحال دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا تھا۔
اجلاس سے قبل جب بجٹ دستاویزات پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنا شروع ہوئیں تو وہاں موجود صحافیوں نے ان کی ویڈیو بنانا شروع کر دی۔ ایک صحافی نے جملہ کسا کہ ’مہنگائی بم پارلیمنٹ ہاؤس پہنچا دیا گیا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
حکومت کے اعلانات، روسی تیل کے پاکستان پہنچنے میں مسائل کیا ہیں؟Node ID: 770946
-
اقتصادی سروے: ڈالر اصل قیمت سے 40 سے 45 روپے مہنگا ہے، اسحاق ڈارNode ID: 771121
بجٹ اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت کمیٹی روم نمبر دو میں ہونا تھا جس کے لیے بم ڈسپوزل سکواڈ نے پہلے کمیٹی روم اور بعد ازاں بکسوں میں بند آنے والی دستاویز کو مشینوں کے ذریعے کلیئر کیا۔
جب دستاویزات کی سکیورٹی کلیئرنس ہو رہی تھی تو میرے ساتھ کھڑے صحافی نے کہا کہ ’بم ڈسپوزل سکواڈ والے کی مشین یا خراب یا پھر ناکارہ ہے۔‘ ان سے پوچھا وہ کیسے تو صحافی نے جواب دیا کہ ’یہ مہنگائی بم کو ڈیٹیکٹ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔‘
وزیراعظم اجلاس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تو صحافیوں کی جانب سے بجٹ سے متعلق سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’قوم دعا اور صبر کرے کہ ہم اچھا بجٹ اور زیادہ سے زیادہ ریلیف دے سکیں۔‘
بجٹ اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس کو ایک رسم ہی سمجھا جاتا ہے جس میں وزیر خزانہ یا وزارت خزانہ کے حکام کابینہ کو مختصر بریفنگ دیتے ہیں اور کابینہ بجٹ کی منظوری دے دیتی ہے۔ جس کے بعد وزیر اعظم فنانس بل پر دستخط کرتے ہیں۔ یہ اجلاس عموماً آدھے پونے گھنٹے میں ختم ہو جاتا ہے، لیکن جمعہ کو ہونے والا اجلاس تین گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہا۔
اس دوران وزارت اطلاعات کی جانب سے صحافیوں کو بتایا گیا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف سرکاری ملازمین کے وکیل بن گئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کیا جائے۔‘ جبکہ دوسری جانب حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ وہ سرکاری ملازمین کے لیے کم از کم 50 فیصد اضافے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اجلاس ختم ہونے سے پہلے ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی خبر باہر آ چکی تھی، تاہم اجلاس ختم ہوا تو کابینہ کے کسی بھی رکن نے کوئی بات نہ کی اور سب ہال کے اندر چلے گئے۔
