Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب اور فرانس کے درمیان تعلقات فروغ پا رہے ہیں:عادل الجبیر

وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے کہا کہ سعودی عرب اور فرانس کے درمیان تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ فوٹو: عرب نیوز
سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے کہا ہے کہ فرانس اور مملکت کے درمیان تعلقات فروغ پا رہے ہیں، دونوں ممالک کئی دہائیوں سے سٹریٹیجک شراکت دار اور اتحادی ہیں۔
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں موجود وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے عرب نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک بین الاقوامی تعلقات، قوموں کی خودمختاری، عدم مداخلت کا اصول اور بین الاقوامی قانون سے متعلق مشترکہ نظریہ رکھتے ہیں۔
عرب نیوز کے ایڈیٹر ان چیف فیصل عباس کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں عادل الجبیر نے کہا کہ ’ہم دونوں (ممالک) کو اپنے لوگوں پر یقین ہے۔ ہم خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم دونوں مواقع فراہم کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم دونوں دنیا کے ساتھ جڑنے میں یقین رکھتے ہیں۔ اور ہم دونوں دنیا سے جڑنے اور دنیا سے جڑے رہنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
عادل الجبیر نے کہا کہ سعودی عرب اور فرانس کے درمیان تعلقات بہت مضبوط ہیں اور مضبوط رہے ہیں۔
’اور ہم اپنے رہنماؤں کے درمیان ذاتی سطح پر تعلقات کے فروغ کے  منتظر ہیں۔ یہ ایک بہت مضبوط ذاتی نوعیت کا تعلق ہے۔‘
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے کے اواخر میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سرکاری دورے پر فرانس پہنچنے تھے جہاں انہوں نے صدر ایمانویل میخواں سے بھی ملاقات کی اور پیر کی رات کو پیرس میں ایکسپو 2030 کی میزبانی کےلیے نامزدگی کے حوالے سے سعودی عرب کی سرکاری استقبالیہ تقریب میں شرکت کی۔
سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے مزید کہا کہ ’ہمارے جوان رہنما ہیں جو دونوں ممالک کو بہتر  سطح پر لے جانے کے لیے ویژن، عزائم اور ہمت رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور فرانس کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ، ثقافت اور تعلیمی شعبوں کے علاوہ لوگوں کے درمیان تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے بھی بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔ 
ایک سوال کے جواب میں کہ فرانس یوکرین جنگ کے پرامن حل کے لیے سعودی عرب کی مدد چاہتا ہے، عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ مملکت نے قیدیوں کے تبادلے میں فعال کردار ادا کیا، یوکرینی بندرگاہوں سے اناج کی برآمد میں سہولت فراہم کی اور تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش میں بین الاقوامی برادری کے ساتھ رابطے میں رہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مختلف چیلنجز سے نمٹنے اور رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے ڈائیلاگ اور خیالات کا تبادلہ ہوتا ہے اور یہ ہم سنجیدہ اور گہرے مشاورتی عمل کے ذریعے کرتے ہیں۔ دونوں ممالک کا مقصد مشرق وسطیٰ اور دنیا میں امن و استحکام لانا ہے۔‘
عادل الجبیر نے کہا کہ ’ہم قابل تجدید توانائی میں دنیا کے بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک ہیں، چاہے وہ شمسی توانائی ہو ہوا سے پیدا ہونے والی یا پھر ہائیڈرو توانائی ہو۔‘
’ہم ہمسایہ ممالک میں ٹرانسمیشن لائنز لگانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ دوسرے ممالک کو توانائی کی ترسیل زیادہ مؤثر انداز میں ہو سکے۔ ہم یورپ کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ یورپ کی گرین ہائیڈروجن کی ضروریات کو کیسے پورا کر سکتے ہیں۔‘
’ہم روٹرڈیم کی بندرگاہ کی وجہ سے بالخصوص جرمنی اور نیدرلینڈز کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ گرین ہائیڈروجن کے لیے ٹیکنالوجی میں جرمنی ہمارا سٹریٹیجک شراکت دار ہے۔ ہم نیوم میں دنیا کا سب سے بڑا گرین ہائیڈروجن پلانٹ تعمیر کر رہے ہیں۔‘
قابل تجدید ذرائع میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری وسیع تر ماحولیاتی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا نفاذ ویژن 2030 کے سماجی اصلاحات اور اقتصادی تنوع کے ایجنڈے کے ذریعے کیا گیا ہے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایکسپو 2030 کی میزبانی کے لیے نامزدگی کے حوالے سے سعودی عرب کی سرکاری استقبالیہ تقریب میں شرکت کی۔ فوٹو: ایس پی اے

ایک اور سوال کے جواب میں کہ کیا ولی عہد کی پیرس میں ذاتی حیثیت میں موجودگی اس بات کا عندیہ ہے کہ سعودی عرب کے خیال میں ایکسپو 2030 کی میزبانی کا فیصلہ اسی کے حق میں ہو گا، اس پر عادل الجبیر نے کہا کہ ’ووٹنگ نومبر میں ہوگی۔ ہم بہتر پوزیشن میں ہیں۔ ہم ولی عہد کی پیرس میں موجودگی کے باعث مزید بہتر پوزیشن میں ہوں گے کہ شہزادہ محمد بن سلمان وفود سے بات چیت کرنے اور نامزدگی کے حوالے سے سعودی عرب کی سرکاری استقبالیہ تقریب میں شرکت کے لیے موجود ہیں۔‘
’ایکسپو 2030 کی میزبانی کےلیے نامزدگی کے حوالے سے سعودی عرب کی سرکاری استقبالیہ تقریب میں ولی عہد کی شرکت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ویژن 2030 کی رہنمائی کرنے والے خود ہیں۔‘
بین الاقوامی ایکسپو 2030 سے متعلق وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے کہا کہ ’یہ ایسی نمائش ہوگی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم بے تحاشا وسائل اس نمائش کے لیے مختص کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ عارضی نمائش نہ ہو بلکہ ایک مستقل نمائش ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ریاض کے ثقافتی منظر نامے کا حصہ بنے۔‘
’اگر ہمیں سال 2030 میں سعودی عرب کے شہر ریاض میں اس اہم تقریب کی میزبانی کے لیے ووٹ ملنے کا اعزاز حاصل ہوا تو، مجھے اس میں بالکل شک نہیں کہ دنیا مثبت طور پر دنگ رہ جائے گی کہ سعودی عرب کیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘

شیئر: