Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کے سرکاری پیغام رساں کبوتر آج بھی متحرک، ’لائف لائن کا کام کرتے ہیں‘

ماہرین کے مطابق کبوتر سینکڑوں کلومیٹر اڑ کر پیغام مطلوبہ مقام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں (فوٹو: روئٹرز)
ٹیلی فون اور پیغام رسانی کے دیگر جدید ذرائع کے باوجود انڈیا میں کبوتروں کے ایسے غول ابھی بھی موجود ہیں جن کو سرکاری طور پر پیغام رسانی کے لیے استمعال کیا جاتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ریاست اوڈیشا کے شہر کٹک کے ایک پولیس سٹیشن میں کبوتروں کے لیے بنایا گیا خصوصی کمرہ موجود ہے جو کسی ڈاک خانے سے مشابہہ لگتا ہے۔
برطانوی دور کے انڈیا میں پولیس کو ایسے کبوتر فراہم کیے جاتے تھے جن کے ذریعے افسران ایک دوسرے تک پیغام پہنچاتے تھے۔ اس کے لیے الگ سے ایک ڈیپارٹمنٹ موجود تھا جس میں مختلف نسلوں کے سینکڑوں کبوتر ہوا کرتے تھے۔
 کٹک کے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کبوتروں کے ذریعے پیغام پہنچانے کے سلسلے کو اس لیے برقرار رکھا گیا ہے کیونکہ اب بھی اکثر ایسے حالات بن جاتے ہیں کہ ذرائع مواصلات منقطع ہو جاتے ہیں۔
جیسے موسم کی خرابی یا کوئی قدرتی آفت وغیرہ، اس صورت میں کبوتروں کو حرکت میں لایا جاتا ہے۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس سیتش کمار کا کہنا ہے کہ ’ہم نے کبوتروں کو ورثے کے طور رکھا ہوا ہے جبکہ ان کی نسلیں بھی ہماری آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ ہو رہی ہیں۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کبوتر 55 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ سکتے ہیں اور ایک اڑان میں آٹھ سو کلومیٹر دور تک جا سکتے ہیں۔
’پچھلے 40 برسوں کے دوران دو ایسے مواقع آئے جن میں انہی کبوتروں نے لائف لائن کے طور پر کام کیا۔‘

پولیس سٹیشن میں کبوتروں کے لیے الگ کمرہ بنایا گیا ہے (فوٹو: روئٹرز)

1999 میں ایک شدید سمندری طوفان کے باعث ساحلی علاقوں میں ذرائع مواصلات کی لائنز میں خرابی پیدا ہو گئی تھی، اس دوران پیغام رساں کبوتروں سے مدد حاصل کی گئی جو تحریری پیغام ایک سے دوسرے شہر پہنچاتے۔
اسی طرح 1982 میں شدید سیلاب کے باعث ریاست کے کئی علاقوں میں تباہی ہوئی تھی جس سے سڑکیں اور ٹیلی فون لائنز بھی تباہ ہوئیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ پیغام پہنچانا مشکل ہو گیا تھا اس وقت بھی کبوتروں کے اسی غول نے اڑان بھری تھی۔
پیغام رسانی کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ کاغذ پر پیغام لکھ کر کیپسول میں ڈالا جاتا ہے اور اس کو کبوتر کے پیروں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔

کاغذ پر لکھا پیغام کیپسول میں ڈال کر کبوتر کے پیروں کے ساتھ باندھا جاتا ہے (فوٹو: روئٹرز)

حکام کا کہنا ہے کہ اس سے قبل پرندوں کو باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے جس کی بدولت وہ مطلوبہ مقام تک پیغام آسانی سے پہنچا دیتے ہیں۔
پرندوں کی دیکھ بھال کرنے والے پرشورام نندا کا کہنا ہے کہ ’پانچ چھ ہفتے کے بچے کی تربیت شروع کر دی جاتی ہے اور مخصوص پناہ گاہ میں رکھا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’جب وہ تھوڑے سے بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کو کچھ فاصلے پر لے جا کر چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ اپنی جبلت کے مطابق واپس آ جاتے ہیں۔‘

کبوتروں کو پیغام رسانی کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے (فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس فاصلے کو دھیرے دھیرے بڑھایا جاتا ہے اور صرف 10 روز بعد ہی وہ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ 30 کلومیٹر کے فاصلے سے واپس آ سکیں۔‘
دونوں عالمی جنگوں کے دوران کئی ممالک میں کبوتروں کو پیغام پہنچانے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا رہا۔

قدرتی آفت یا کسی اور وجہ سے ذرائع مواصلات منقطع ہونے پر پیغام رساں کبوتروں کو حرکت میں لایا جاتا ہے (فوٹو: روئٹرز)

پچاس قبل مسیح میں جولیس سیزر نے جب مغربی یورپی علاقوں کو فتح کیا تو یہ خبر بھی کبوتروں کے ذریعے ہی روم تک پہنچائی گئی تھی۔ اسی طرح نیپولین کی شکست کی خبر بھی کبوتروں کی وساطت سے ہی دوسرے ممالک تک پہنچائی گئی۔
پولیس کے ساتھ کام کرنے والے تاریخ دان انیل دھیر کا کہنا ہے کہ’تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کبوتر مقناطیسی مقامات کا پتہ لگا سکتے ہیں اور سینکڑوں کلومیٹر دور سے ہی اپنی منزل کا تعین کر لیتے ہیں۔‘

شیئر: