Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرکاری ہسپتالوں سے ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کی سیٹیں کیوں ختم کی جا رہی ہیں؟

پروفیسر سلمان شیروانی کے مطابق ’پنجاب کے ہسپتالوں میں حکیموں کی بھرتیاں شروع سے ہی ہو رہی ہیں۔‘ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں ایک طویل عرصے سے موجود حکیموں اور ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کی نشستیں ختم کی جا رہی ہیں۔
صوبے کی نگران کابینہ کی جانب سے منظوری کے بعد اسمبلی میں پیش کیے جانے والے چار مہینوں کے غیر ترقیاتی بجٹ میں سرکاری ہسپتالوں میں متبادل طریقہ علاج کے لیے مختص ہومیوپیتھک ڈاکٹروں اور حکیموں کی خالی نشستوں کے لیے بجٹ نہیں رکھا گیا، اور اس کے ساتھ ہی محکمہ صحت نے ان تقرریوں کے خاتمے کی سمری بھی منظور کر لی ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق پنجاب بھر میں پرائمری اینڈ سیکنڈری ہسپتالوں میں 300 سے زائد نشستیں حکیموں اور ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کے لیے تھیں جن میں سے زیادہ تر خالی ہیں، اور ان پر گزشتہ ایک دہائی سے بھرتیاں نہیں کی گئیں۔
تاہم اب ان خالی نشستوں کو بھی ختم کیا جا رہا ہے اور جن تقرریوں پر حکیم اور ہومیوپیتھک ڈاکٹرز ابھی کام کر رہے ہیں، ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ آسامیاں بھی مستقل طور پر ختم کر دی جائیں گی۔

سرکاری ہسپتالوں میں حکیم

سیالکوٹ میڈیکل کالج کے شعبہ ادویات کے پروفیسر سلمان شیروانی بتاتے ہیں کہ ’پنجاب کے ہسپتالوں میں حکیموں کی بھرتیاں شروع سے ہی ہو رہی ہیں اور ہمیشہ سے سرکاری ہسپتالوں میں طبیب یا ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کا ایک الگ سے کمرہ رکھا جاتا ہے۔ جہاں وہ بیٹھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ان حکیموں کے ساتھ ایک سٹاف کا بندہ بھی ہوتا ہے جو دوائیاں بنانے کے لیے رکھا جاتا ہے، اس کی تنخواہ بھی سرکار ہی دیتی رہی ہے۔ اس کا مقصد شائد یہ ہو کہ جو لوگ ایلوپیتھک ادویات پر یقین نہیں رکھتے، انہیں مستند حکیم جو کوئی نہ کوئی ڈگری لے کر آئے ہوں وہ مہیا کیے جائیں۔ تاکہ عام گلیوں اور محلوں میں اتائی حکیموں سے وہ بچ سکیں۔‘

حکیم محمد اعظم کے مطابق امراض معدہ وغیرہ میں لوگ ان کے پاس آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ (فائل فوٹو: میڈلائن پلس)

حکومت کا موقف ہے کہ ایسی اسامیاں جو اب غیر ضروری ہیں ان کو ایک باقاعدہ انتظام کے تحت ختم کیا جائے گا۔ تاہم سرکاری ہسپتالوں میں تعینات حکیموں کا موقف ہے کہ ان کے فائدہ مند نہ ہونے کا تاثر غلط ہے اور اب بھی بہت سے مریض سرکاری ہسپتالوں میں آ کر ان سے علاج کرواتے ہیں۔
شیخوپورہ کے ایک سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والے حکیم محمد اعظم نے اس بارے میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کا یہ اقدام کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔
’میں گزشتہ 20 برسوں سے خدمات انجام دے رہا ہوں اور لوگوں کا بہت اعتماد ہے۔ کچھ ایسی بیماریاں ہیں جیسا کہ امراض معدہ وغیرہ، اس میں لوگ ہمارے پاس آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ان کی تنخواہ بھی اتنی زیادہ نہیں ہے۔ حکومت بڑے عرصے سے متبادل طریقہ علاج کے شعبے کو توجہ نہیں دے رہی ہے اور باقاعدہ ایک طریقے سے اس کو ختم کیا جا رہا ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ گزشتہ 10 برسوں میں سرکاری ہسپتالوں میں حکیموں کی بھرتیاں کھولی گئی ہوں اور اب پہلے سے موجود اسامیاں بھی ختم کرنے کی اطلاعات ہیں۔‘
بجٹ دستاویزات کے مطابق حکیموں اور ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کے لیے مختص نشستوں کو ختم کر کے ان کا بجٹ ایلوپیتھی کو الاٹ کیا جائے گا۔

پنجاب کے چار مہینوں کے غیر ترقیاتی بجٹ میں سرکاری ہسپتالوں میں ہومیوپیتھک ڈاکٹروں اور حکیموں کی خالی نشستوں کے لیے بجٹ نہیں رکھا گیا۔ (فائل فوٹو: دی سائنٹسٹ)

وزارت صحت کے ایک ترجمان کے مطابق بجٹ کے درست استعمال کے لیے غیر ضروری اخراجات کے خاتمے پر کام ضرور ہو رہا ہے لیکن کسی کی نوکری ختم نہیں کی جائے گی۔
ترجمان نے کہا ’کسی کو بھی نوکری سے نہیں نکالا جائے گا اور نہ ہی کوئی حکومت ایسا کر سکتی ہے۔ البتہ جو سیٹیں استعمال ہی نہیں ہو رہیں اور ہر برس اس کے لیے بجٹ رکھنا پڑتا ہے، اس بارے میں کچھ سفارشات ہیں جن کے حتمی نتیجے کی تصدیق بجٹ کی منظوری کے بعد ہی ہو سکے گی۔‘

شیئر: