Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماہِ رمضان المبارک ، تقویٰ کے حصول کا ذریعہ

روزہ رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی، اصل مقصد غفلت کے پردوں کو دل سے دور کیاجائے،مقصدِ تخلیق کی طرف رجوع کیاجائے
* * * * * * * * * * *
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار وبرکات کا سیلاب آتا ہے اور اس کی رحمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں، مگر ہم لوگ اس مبارک مہینے کی قدرومنزلت سے واقف نہیں کیونکہ ہماری ساری فکر اور جدوجہد مادّیت اور دنیاوی کاروبار کے لئے ہے۔اس مبارک مہینے کی قدردانی وہ لوگ کرتے ہیں جن کی فکر آخرت کے لئے اور جن کا محور مابعد الموت ہو۔ آپ حضرات نے یہ حدیث شریف سنی ہوگی۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو حضور اکرم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اللہم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنارَمَضَانَ(شعب الایمان، تخصیص شہر رجب بالذکر)۔ ’’اے اللہ ہمارے لئے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادیجیے۔‘‘
یعنی ہماری عمر اتنی دراز کردیجیے کہ ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب ہوجائے۔ آپ غور فرمائیں کہ رمضان المبارک آنے سے2ماہ پہلے ہی رمضان کا انتظار اوراشتیاق ہورہا ہے اوراس کے حاصل ہونے کی دعا کی جارہی ہے۔ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جس کے دل میں رمضان کی صحیح قدروقیمت ہو۔ رمضان کے معنی: ’’رمضان‘‘ عربی زبان کالفظ ہے، جس کے معنیٰ ہیں ’ ’ جھلسادینے والا‘‘۔ اس مہینے کا یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ اسلام میں جب سب سے پہلے یہ مہینہ آیا تو سخت اور جھلسادینے والی گرمی میں آیا تھا لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی خاص رحمت سے روزے دار بندوں کے گناہوں کو جھلسادیتے ہیں اورمعاف فرمادیتے ہیں، اس لئے اس مہینے کو ’’رمضان‘‘ کہتے ہیں (شرح ابی داؤد للعینی)۔
رمضان رحمت کا خاص مہینہ: اللہ تعالیٰ نے یہ مبارک مہینہ اس لئے عطا فرمایا کہ 11مہینے انسان دنیا کے دھندوں میں منہمک رہتا ہے جس کی وجہ سے دلوں میں غفلت پیدا ہوجاتی ہے،روحانیت اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں کمی واقع ہوجاتی ہے، تو رمضان المبارک میںآ دمی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے اس کمی کو دور کرسکتا ہے، دلوں کی غفلت اور زنگ کو ختم کرسکتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرکے زندگی کا ایک نیادور شروع ہوجائے۔ جس طرح کسی مشین کو کچھ عرصہ استعمال کرنے کے بعداس کی سروس اور صفائی کرانی پڑتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی صفائی اور سروس کے لئے یہ مبارک مہینہ مقرر فرمایا۔
روزے کا مقصد: روزے کی ریاضت کا بھی خاص مقصد اور موضوع یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان کی حیوانیت اور بہیمیت کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اورایمانی وروحانی تقاضوں کی تابعداری وفرماں برداری کا خوگر بنایاجائے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں نفس کی خواہشات اور پیٹ اور شہوتوں کے تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالی جائے اور چوں کہ یہ چیز نبوت اور شریعت کے خاص مقاصد میں سے ہے اس لئے پہلی تمام شریعتوں میں بھی روزے کا حکم رہا ہے، اگرچہ روزوں کی مدت اور بعض دوسرے تفصیلی احکام میں ان امتوں کے خاص حالات اور ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، قرآنِ کریم میں اس امت کو روزے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایاگیا ہے: ’’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے (روزوں کا یہ حکم تم کو اس لئے دیا گیا ہے) تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ ‘‘( البقرہ 183) ۔ کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ نفس انسانی انسان کو گناہ، نافرمانی اور حیوانی تقاضوں میں اسی وقت مبتلاکرتا ہے جبکہ وہ سیراور چھکاہوا ہو، اس کے برخلاف اگر بھوکا ہوتو وہ مضمحل پڑا رہتا ہے اور پھر اس کو معصیت کی نہیں سوجھتی، روزے کا مقصد یہی ہے کہ نفس کو بھوکا رکھ کر مادّی وشہوانی تقاضوں کو بروئے کار لانے سے اس کو روکا جائے تاکہ گناہ پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سْست پڑجائے اور یہی ’’تقویٰ‘‘ ہے۔
اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ عالم بالا کی پاکیزہ مخلوق (فرشتے) نہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں اورنہ بیوی رکھتے ہیں جبکہ روزہ (صبح صادق سے غروب آفتاب تک) انہی3 چیزوں (کھانا، پینا اور جماع) سے رکنے کا نام ہے، تو گویا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو روزے کا حکم دے کر ارشاد فرمایا ہے کہ اے میرے بندو! اگر تم ان تینوں چیزوں سے پرہیز کرکے ہماری پاکیزہ مخلوق کی مشابہت اختیار کروگے تو ہماری اس پاکیزہ مخلوق کی پاکیزہ صفت بھی تمہارے اندر پیدا ہوجائیگی اور وہ صفت ہے: ’’وہ (فرشتے) اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو ان کو حکم دیتا ہے اور جو کچھ ان کو حکم دیاجاتا ہے اس کو فوراً بجالاتے ہیں۔‘‘ (التحریم 6) اور اسی کاحاصل ’’تقویٰ‘‘ ہے۔ تقریباً اسی بات کو حدیث شریف میں بھی فرمایاگیاہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’ ہر چیز کے لئے کوئی نہ کوئی صفائی ستھرائی کا ذریعہ ہے اور بدن کی صفائی ستھرائی کا ذریعہ روزہ ہے۔‘‘(ابن ماجہ)۔ بہرحال روزے کا مقصد تقویٰ ہے۔ اسی تقویٰ کے حصول کے لئے اِس آخری امت پر سال میں ایک مہینے کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوعِ صبح صادق سے غروب آفتاب تک رکھا گیا اور یہ زمانہ اِس دور کے عام انسانوں کے حالات کے لحاظ سے ریاضت وتربیت کے مقصد کے لئے بالکل مناسب اورنہایت معتدل مدت اور وقت ہے، پھر اس کے لئے مہینہ وہ مقرر کیاگیا جس میں قرآن کریم کا نزول ہوا اور جس میں بے حساب برکتوں اور رحمتوں والی رات (شبِ قدر) ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ یہی مبارک مہینہ اس کے لئے سب سے زیادہ مناسب اور موزوں زمانہ ہوسکتاتھا، اسی کے ساتھ ساتھ اس مہینے میں دن کے روزوں کے علاوہ رات میں بھی ایک خاص عبادت کا عمومی اور اجتماعی نظام قائم کیاگیا جس کو ’’تراویح‘‘ کہا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس مبارک مہینے کی نورانیت اور تاثیر میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور ان دونوں عبادتوں کے احادیث شریفہ میں بہت زیادہ فضائل ارشاد فرمائے گئے ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ماہِ رمضان کے روزے رکھے بحالت ایمان اور بامیدِ ثواب تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جو شخص ماہِ رمضان میں کھڑاہو یعنی نوافل (تراویح وتہجد وغیرہ) پڑھے بحالت ایمان اور بامیدِ ثواب اس کے بھی گزشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘( بخاری و مسلم) ۔ تقویٰ کے حصول میں معاون چیزیں: لیکن صرف روزہ رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی بلکہ اس ماہ کا اصل مقصد یہ ہے کہ غفلت کے پردوں کو دل سے دور کیاجائے،اصل مقصدِ تخلیق کی طرف رجوع کیاجائے۔
گزشتہ11 مہینوں میں جو گناہ ہوئے ان کو معاف کراکر آئندہ 11مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کے استحضار اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ گناہ نہ کرنے کا داعیہ اور جذبہ دل میں پیدا کیا جائے جس کو ’’تقویٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس طرح رمضان المبارک کی صحیح روح اوراس کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے، ورنہ یہ ہوگا کہ رمضان المبارک آئیگا اور چلا جائیگا اور اس سے صحیح طور پر ہم فائدہ نہیں اٹھاپائیں گے بلکہ جس طرح ہم پہلے خالی تھے ویسے ہی خالی رہ جائیں گے اس لئے چند ایسی چیزوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جن پر عمل کرکے ہمیں روزے کا مقصد (تقویٰ) اور رمضان المبارک کے انوار وبرکات حاصل ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ عبادت کی مقدار میں اضافہ: رمضان المبارک کی برکتوں کو حاصل کرنے کے لئے اپنی عبادت کی مقدار میں اضافہ کرنا ہے۔دوسرے ایام میں جن نوافل کو پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ان کو اس مبارک ماہ میں پڑھنے کی کوشش کریں، مثلاً: مغرب کے بعد سنتوں سے الگ یا کم از کم سنتوں کے ساتھ 6 رکعت اوّابین پڑھیں (جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ اوّابین افطار کی نذر ہوجاتی ہیں)۔
عشاء کی نماز سے چند منٹ پہلے مسجد آکر4 رکعت یا2رکعت نفل پڑھیں۔ سحری کھانے کے لئے اٹھنا ہی ہے تو چند منٹ پہلے اٹھ کر کم از کم 4 رکعت تہجد پڑھ لیں۔ اسی طرح اشراق کی نماز اور اگراشراق کے وقت نیند کا غلبہ ہوتو چاشت کی چند رکعتیں تو پڑھ ہی لیں۔ ظہر کے بعد 2سنتوں کے ساتھ 2رکعت نفل اور عصر سے پہلے4 رکعت نفل پڑھ لیں کیونکہ نماز کا خاصّہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کا رشتہ جوڑتی ہے اوراس کے ساتھ تعلق قائم کراتی ہے، جس کے نتیجے میں انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، جیساکہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث شریف میں ہے: ’’ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتاہے۔‘‘(مسلم، باب ما یقال فی الرکوع والسجود)۔ تو گویا نماز کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم تحفہ عطا کیاہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے، آمین! تلاوتِ قرآنِ کریم کی کثرت: دوسرا کام یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کا خاص اہتمام کرنا ہے کیونکہ رمضان المبارک کے مہینے کو قرآن کریم کے ساتھ خاص مناسبت اور تعلق ہے ۔اسی مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا، ارشادِ مبارک ہے: ’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قسرآن اتارا گیا۔‘‘(البقرہ185)۔
خود نبی کریم بھی رمضان المبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرمایا کرتے تھے (بخاری) ۔ تمام بزرگانِ دین کی زندگیوں میں یوں تو قرآنِ کریم میں اشتغال بہت زیادہ نظر آتاہے، لیکن رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی تلاوت کے معمول میں غیرمعمولی اضافہ ہوجاتا ، چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس مبارک مہینے میں ایک قرآنِ کریم دن میں، ایک رات میں اور ایک تراویح میں، اس طرح61قرآن کریم ختم فرماتے تھے۔ ماضی کے ہمارے تمام اکابر (حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ،مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، مولانا شاہ عبدالرحیم رائپوریؒ، شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندیؒ، مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، مولانا یحییٰ کاندھلویؒ، مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ، شاہ عبدالقادر رائپوریؒ، شیخ الحدیث مولانا زکریا مہاجر مدنیؒ، فقیہ الامت مولانا مفتی محمودحسن گنگوہیؒ، مولانا قاری سید صدیق احمد باندویؒ، مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئیؒ، فدائے ملت مولانا سیداسعدمدنیؒ وغیرہم) کا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کریم کا معمول دیدنی ہوتا تھا، لہٰذا ہم کو بھی اس مبارک ماہ میں عام دنوں کے مقابلے میں تلاوت کی مقدار زیادہ کرنی ہے، عام آدمی کو بھی روزانہ کم از کم 3 پارے پڑھنے چاہئیں تاکہ پورے مہینے میں کم از کم 3 قرآنِ کریم ختم ہوجائیں۔ تراویح میں قرآنِ کریم سننے کا اہتمام: اس مبارک مہینے میں ہرمؤمن کو اس بات کی بھی فکر کرنی ضروری ہے کہ تراویح میں قرآنِ مجید صحیح اور صاف صاف پڑھا جائے، جلدی جلدی اور حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھنے سے پرہیز کیا جائے کیونکہ اس طرح قرآنِ کریم پڑھنا اللہ کے کلام کی عظمت کیخلاف ہے، نیز پڑھنے والے کو خود قرآنِ کریم بددعا دیتا ہے(احیاء العلوم عن انس، فی ذمّ تلاوۃ الغافلین)۔
اس طرح قرآن کریم پڑھنے والا اور سننے والے سب گنہگار ہوتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ حافظ صاحب نہایت تیزگامی کے ساتھ حروف کو کاٹ کاٹ کر پڑھتے چلے جارہے ہیں، ایک سانس میں سورئہ فاتحہ کو ختم کردیا جاتا ہے ، صحیح طریقے سے رکوع، سجدہ اور تشہد ادا نہیں ہورہا ، 45,40 منٹ میں پوری نماز ختم۔ اب گھنٹوں مجلسوں میں بیٹھ کر گپ شپ ہورہا ہے اورحافظ صاحب وسامعین میں سے کسی کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ ہم نے قرآنِ کریم کی توہین میں کتنا حصہ لیا اور رمضان کی مبارک ساعتوں میں کتنی بے برکتی اور قرآن کریم کی کتنی بددعا لی؟ خدا را اس صورتِ حال سے بچئے اور اس مبارک مہینے میں برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کو اپنے اوپر بند نہ کیجیے اور صاف صحیح قرآن کریم پڑھنے اور سننے کا اہتمام کرکے دارین کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کیجیے۔ استغفار کی کثرت: چوتھا کام یہ کرنا ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنی ہے۔ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مشہور حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم نے منبر کی پہلی، دوسری اور تیسری سیڑھی پر قدم رکھتے ہوئے ’’آمین‘‘ فرمایا۔صحابہ ؓ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پوچھنے پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیل امین( علیہ الصلاۃ والسلام) میرے سامنے آئے تھے اورجب میں نے منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو انھوں نے کہا: ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی، میں نے کہا آمین، الیٰ آخر الحدیث (مستدرک حاکم، کتاب البر والصلۃ، الترغیب والترہیب)۔
ظاہر ہے کہ اُس شخص کی ہلاکت میں کیا شبہ ہے جس کے لئے حضرت جبرئیل علیہ السلام بددعا کریں اورحضور اکرم آمین کہیں، اس لئے اس مبارک مہینے میں نہایت کثرت کے ساتھ گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرے۔ دعا کا اہتمام: رمضان المبارک کی برکات کو حاصل کرنے کے لئے دعاؤں کا اہتمام بھی لازم ہے۔بہت سی روایات میں روزے دار کی دعا کے قبول ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’3 آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی (ضرور قبول ہوتی ہے): ایک روزے دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم کی بددعاء، اس کو اللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھالیتے ہیں اورآسمان کے دروازے اس کے لئے کھول دیے جاتے ہیں اورارشاد ہوتا ہے کہ میں تیری ضرور مدد کروں گا گو(کسی مصلحت سے) کچھ دیر ہوجائے۔‘‘(ترمذی ، مسند احمد )۔
بہرحال یہ مانگنے کا مہینہ ہے، اس لئے جتنا ہوسکے دعا کا اہتمام کیا جائے۔اپنے لئے، اپنے اعزہ واحباب اور رشتے داروں کے لئے، اپنے متعلقین کیلئے، ملک وملت کیلئے اور عالم اسلام کیلئے خوب دعائیں مانگنی چاہئیں، اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(جاری ہے)

شیئر: