نگراں وزیراعظم کا نام فائنل کرنے کے لیے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں مشاورت ہوتی ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستان میں وفاقی حکومت کی پانچ سالہ مدت ختم ہونے میں پانچ ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ حکمران اتحاد کی تیاریوں سے بظاہر یہ دکھائی دینے لگا ہے کہ حکومت یا اسمبلیوں کی مدت میں توسیع کی کوئی تجویز زیرِ غور نہیں۔
اسی صورت حال میں نگراں وزیراعظم کے حوالے سے کئی نام سامنے آ رہے ہیں۔
پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد نگراں وزیراعظم کے تقرر کے لیے سب سے پہلا اختیار وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے پاس ہے جو باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق کر سکتے ہیں۔
دونوں میں اتفاق نہ ہونے کی صورت میں معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جاتا ہے اور وہاں پر بھی اتفاق نہ ہونے کے بعد معاملہ الیکشن کمیشن کو جاتا ہے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو حتمی سمجھا جاتا ہے۔
سنہ 2013 میں وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کے درمیان اتفاق نہیں ہو سکا تھا اور معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا جس نے میر ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیراعظم مقرر کیا۔
سنہ 2018 میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے ساتھ ہی جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک کے نام پر اتفاق کرتے ہوئے انہیں نگراں وزیراعظم نامزد کیا۔
اِس وقت چونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور قائد حزب اختلاف برائے نام سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ نگراں وزیراعظم کا نام حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں اور مقتدر حلقے ہی فائنل کریں گے۔
گذشتہ کچھ عرصے سے بعض نام وزارت عظمیٰ کے لیے وقتاً فوقتاً سامنے بھی آتے رہے ہیں، تاہم کسی بھی جماعت کی جانب سے ابھی تک رسمی طور پر کوئی نام نہیں لیا گیا۔
جو نام اب تک سامنے آئے ہیں ان میں آن لائن نیوز ایجنسی کے مالک محسن بیگ، دنیا میڈیا گروپ کے مالک اور سابق ضلع ناظم لاہور میاں عامر محمود، سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی، سابق بیوروکریٹ فواد حسن فواد اور سابق گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر شامل ہیں۔
اب گذشتہ چند روز سے ایک کاروباری شخصیت کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ دبئی میں نواز شریف سے ان کی ملاقات بھی کروائی گئی ہے۔ مسلم لیگ ن اس خبر کی تصدیق سے گریزاں ہے۔
محسن بیگ
محسن جمیل بیگ آن لائن نیوز ایجنسی اور ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے مالک ہیں۔ وہ ماضی میں عمران خان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔
تاہم عمران خان کی حکومت میں مراد سعید کی درخواست پر ایف آئی اے نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا اور ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔ اس چھاپے کے دوران محسن بیگ نے ایف آئی اے ٹیم پر فائر بھی کیا۔
محسن بیگ نے وفاقی وزیر مراد سعید کی وزارت کو کارکردگی میں اول نمبر ملنے پر ایک ٹاک شو میں متنازع گفتگو کی تھی۔
ایف آئی اے کو دی گئی اپنی درخواست میں مراد سعید نے کہا تھا کہ محسن بیگ نے اُن پر ایک نجی ٹی وی کے پروگرام کے دوران غیر اخلاقی الزامات لگائے جس سے اُن کی ساکھ متاثر ہوئی اور عوام میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی گئی۔
سیشن جج نے ایف آئی اے کے چھاپے کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا تاہم فائرنگ کے الزام میں انہیں جیل جانا پڑا تھا جہاں سے ضمانت پر وہ رہا ہوئے۔
نگراں وزیراعظم کے حوالے سے کئی حلقوں میں محسن بیگ کا نام زیرگردش رہا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس حوالے سے لابنگ بھی کر رہے ہیں۔
میاں عامر محمود
میاں عامر محمود 25 جولائی 1960 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ پرویز مشرف دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں وہ 2001 سے 2009 تک دو بار لاہور کے ضلع ناظم رہے۔
میاں عامر میڈیا، تعلیمی اداروں سمیت متعدد کاروباری اداروں کے مالک ہیں۔ وہ الائیڈ سکولز، پنجاب گروپ آف کالجز اور یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے چیئرمین اور کیپٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چانسلر ہیں۔
وہ دنیا میڈیا گروپ کے اخبار روزنامہ دنیا کے چیف ایڈیٹر اور نیوز چینلز دنیا نیوز اور لاہور نیوز کے چیئرمین بھی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ سٹی نیوز نیٹ ورک کے مالک محسن نقوی کے وزیراعلٰی پنجاب بننے کے بعد میاں عامر محمود اور ان کے دوستوں کی جانب سے یہ لابنگ کی جا رہی ہے۔
لابنگ کرنے والوں کی رائے ہے کہ ماضی میں سیاست کا تجربہ ہونے اور کئی بڑے اداروں کو چلانے کا تجربہ رکھنے کی وجہ سے وہ نگراں وزیراعظم کے لیے موزوں ترین امیدوار ہیں۔
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی کی شہرت بطور صحافی ہے۔ وہ مارچ 2013 میں عام انتخابات سے پہلے نگراں وزیر اعلٰی پنجاب مقرر ہوئے۔
عمران خان نے ان پر 35 پنکچر کا الزام لگاتے ہوئے 35 حلقوں میں دھاندلی کا الزام لگایا جسے بعد میں انہوں نے سیاسی بیان قرار دے دیا۔
نجم سیٹھی انگریزی ہفتہ وار جریدہ فرائیڈے ٹائمز کے بانی اور چیف ایڈیٹر ہیں۔ اس سے قبل وہ انگریزی اخبار ڈی ٹائمز کے چیف ایڈیٹر کے عہدے پر فائز رہے۔
وہ جیو ٹی وی پر سیاسی شو ’آپس کی بات‘ بھی کر چکے ہیں۔
نواز شریف دور میں انہیں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ بنایا گیا، تاہم 20 اگست 2018 کو عمران خان نے انھیں عہدے سے ہٹا دیا تھا۔پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی اور پی ایس ایل شروع کرنے کا سہرا ان ہی کے سر ہے۔
شہباز شریف نے بھی حکومت میں آنے کے کچھ عرصے بعد انہیں پی سی بی ایگزیکٹو کمیٹی کا چیئرمین نامزد کیا لیکن حکومتی اتحادی پیپلز پارٹی ذکا اشرف کو چیئرمین پی سی بی بنانے پر بضد تھی۔
اس کے بعد نجم سیٹھی یہ کہتے ہوئے اس دوڑ سے باہر ہوگئے کہ وہ شہباز شریف اور آصف زرداری کے درمیان تنازع کی وجہ نہیں بننا چاہتے۔
باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ نجم سیٹھی کو بھی نگراں وزیراعظم بنائے جانے کا اشارہ دیا گیا تھا جس کے بعد وہ پی سی بی سے علیحدہ ہوگئے۔
فواد حسن فواد
فواد حسن فواد گریڈ 22 سے ریٹائرڈ ہونے والے بیوروکریٹ ہیں۔ وہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں کم و بیش چار سال تک اور بعد میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے تقریباً ایک سالہ دور میں پرنسپل سیکریٹری کے عہدہ پر فائز رہے۔
اس سے قبل 2013 کے اوائل تک وہ وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف کے دور میں صوبے کے مختلف محکموں کے سیکریٹری کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ان کی شہرت انتظامی صلاحیتوں کے مالک بیوروکریٹ کی رہی۔
نواز شریف دور میں وہ طاقتور ترین بیوروکریٹ سمجھے جاتے تھے یہاں تک کہ ن لیگ کے وزرا اور ارکان بھی ان سے تنگ تھے اور انہیں نواز شریف اور اپنے درمیان ایک دیوار تصور کرتے تھے۔
سنہ 2018 میں قائم ہونے والی نگراں حکومت نے انہیں سول سروس اکیڈمی لاہور کا ڈی جی مقرر کیا۔
نیب نے لاہور میں آشیانہ ہاؤسنگ سکیم سکینڈل کی تفتیش شروع کی تو فواد حسن فواد پر یہ الزام لگایا کہ شہباز شریف کے ساتھ ملک کر انہوں نے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت اس منصوبے کا ٹھیکہ منظورشدہ فرم کو دینے کے بجائے دوسری فرم کو دلوانے کی کوشش کی تھی۔
فواد حسن فواد 89 دن تک ریمانڈ پر نیب کی حراست میں رہے۔ اس کے بعد انہیں کیمپ جیل لاہور میں بھیج دیا گیا۔
16 ماہ کے بعد 20 جنوری 2020 کو لاہور ہائی کورٹ سے ان کی ضمانت منظور ہوئی تو اس سے دس دن قبل 10 جنوری 2020 کو وہ 60 سال کی عمر پوری ہونے پر سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔
جنوری 2023 نے انہیں ناجائز اثاثہ جات بنانے کے جرم سے باعزت بری کر دیا گیا۔
فواد حسن فواد شاعر بھی ہیں اور ان کی کتاب ’کنج قفس‘ بھی شائع ہو چکی ہے۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد میڈیا پر آکر انہوں نے جیل میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر بھی بات کی۔
انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ان پر شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔
ذرائع کہتے ہیں کہ شہباز حکومت میں انہیں کسی بھی قسم کے عہدے پر اسی وجہ سے تعینات نہیں کیا گیا کہ جس طرح احد چیمہ کو پنجاب میں وزارت اعلٰی کا امیدوار بنایا گیا تھا اسی طرح وفاق میں فواد حسن فواد کو نگراں وزیراعظم کے طور پر نامزد کیا جائے گا۔
ڈاکٹر رضا باقر
ڈاکٹر رضا باقر معیشت دان ہیں اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر رہ چکے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے انہیں گورنر سٹیٹ بینک تعینات کیا تھا۔
اس پر عمران خان کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ گورنر سٹیٹ بینک بننے سے پہلے وہ مصر میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سینیئر ریذیڈنٹ نمائندے تھے۔
رضا باقر نے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔
مصر سے پہلے ڈاکٹر رضا باقر رومانیہ میں آئی ایم ایف مشن کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ 2016 سے کام کر رہے ہیں۔
حال ہی میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد ان کا نام بطور نگراں وزیراعظم سامنے آیا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک ٹی وی پروگرام میں ان کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے ملک کی معیشت کا بھٹہ بٹھایا ان کا نام بھی بطور نگراں وزیراعظم لیا جا رہا ہے۔