Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں میں کم عمر حاملہ خواتین کے علاج سے انکار

15 سال کی عمر میں والدین نے نازیہ بی بی کی شادی ان کے کزن نوید سے کر دی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
’پولی کلینک کے گائنی کلینک کے کاونٹر پر پہنچ کر جب سامنے بیٹھی سٹاف سے کہا کہ مجھے لیڈی ڈاکٹر کو دکھانا ہے۔ پہلے اس نے مجھے گھور کر دیکھا۔ پھر ساتھ کھڑے میرے شوہر کو دیکھا اور کہا کہ شناختی کارڈ دکھاو۔ میں نے کہا کہ میری تو عمر ہی 16 سال ہے۔ جس پر اس نے جواب دیا کہ پھر تو علاج نہیں ہوسکتا۔ کہیں اور چلی جاؤ۔‘  
یہ بات بتاتے ہوئے وہ شرمندہ بھی ہو رہی تھیں اور اداس بھی، شرمندہ اس لیے کہ شرعی اور قانونی رشتے میں ہونے کے باوجود انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا تھا، جبکہ اداس اس لیے کہ غربت اور مہنگائی کے باوجود انہیں پرائیویٹ کلینک سے علاج کرانا پڑے گا۔
نازیہ بی بی کی عمر 16 سال ہے۔ 15 سال کی عمر میں والدین نے ان کی شادی ان کے کزن نوید سے کر دی۔ دونوں اسلام آباد کے علاقے موہڑہ نور میں میں رہتے ہیں۔ نازیہ لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی ہیں جبکہ ان کے شوہر مزدوری کرتے ہیں۔  
کچھ عرصہ پہلے نازیہ بی بی حاملہ ہو گئیں، لیکن گھروں میں کام کاج کا سلسلہ جاری رکھا۔ طبیعت ناساز رہنے لگی تو مقامی کلینک پر دکھانا شروع کیا۔ ہر دفعہ ڈاکٹر  بارہ سو روپے فیس لیتی اور دوائیاں الگ سے لکھ کر دے دیتی۔ جو ان کی استطاعت سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔  
کسی جاننے والے نے مشورہ دیا کہ سرکاری ہسپتال جاو تو وہ اپنی ساس اور میاں کے ہمراہ پولی کلینک پہنچے۔ گائنی کلینک کے کاونٹر پر پہنچ کر جب انھوں نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو انھیں ایک ایسے امتحان کا سامنا کرنا پڑا جس کے بارے میں انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔  
نازیہ بی بی نے جھجھکتے ہوئے بتایا کہ ’جب سٹاف سے کہا کہ مجھے لیڈی ڈاکٹر کو دکھانا ہے تو اس نے مجھے ایسے دیکھا کہ مجھے شرم آنے لگی۔ میں نے کہا کہ میرے شوہر اور ساس بھی ساتھ ہیں۔ اس پر سٹاف نے کہا کہ شوہر کے نام کا شناختی کارڈ دکھاو۔ جب اسے بتایا کہ میری عمر ابھی کم ہے تو اس نے کہا کہ پھر علاج ممکن نہیں ہے۔‘  
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے شوہر اور ساس نے دوسرے کاونٹر پر جا کر کسی بڑے افسر سے بات کی تو انھوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر بچی حاملہ ہے اور اس کا اپنا شناختی کارڈ نہیں ہے تو بے شک نکاح نامہ لے آو پھر بھی علاج نہیں ہوگا، کیونکہ ہمارے قانون میں 18 سال سے کم عمر شادی شدہ لڑکیوں کے زچگی کے کیسز دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔‘
یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کسی بچی کی 15، 16 سال کی عمر میں شادی ہو جائے اور وہ حاملہ ہو جائے تو سرکاری ہسپتال اس کا علاج نہیں کرتے۔ اس حوالے سے وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ’ہسپتال علاج معالجے اور انتظامی امور کے حوالے سے پالیسیاں اور قواعد بنانے میں آزاد ہیں۔‘ 
وزارت صحت کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایسا کوئی معاملہ کبھی ہمارے نوٹس میں نہیں آیا۔ بظاہر اس میں صرف ایک وجہ ہی نظر آتی ہے کہ کسی فرد یا خاندان کی جانب سے کسی بچی کا استحصال نہ کیا جا رہا ہو۔‘  
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد کے ہسپتالوں کے بنیادی قواعد میں شامل ہے کہ وہ اسلام آباد میں مقیم لوگوں کا علاج کریں گے۔ اگرچہ بڑی تعداد میں لوگ دور دراز علاقوں سے یہاں آتے ہیں، لیکن ان کو مقامی ڈاکٹرز یا ہسپتالوں کی جانب سے ریفر کیا جاتا ہے۔ اس لیے اب شناختی کارڈ کی شرط لازمی کر دی گئی ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ مریض اسلام آباد کا رہائشی ہے یا نہیں۔‘ 

خاور ممتاز کے مطابق ’ہسپتالوں کا کام علاج فراہم کرنا ہے مورل پولیسنگ نہیں۔‘ (فوٹو: پکسابے)

ان کے مطابق ’ہسپتال میں مریض کی پرچی اس کے شناختی کارڈ سے بنتی ہے۔ اگر کوئی کم عمر مریض ہو تو اس کے والدین کے شناختی کارڈ یا ب فارم پر پرچی بن جاتی ہے، لیکن جب معاملہ حاملہ بچی کا ہو تو ایسی صورت میں ب فارم نہیں بلکہ میاں کے نام کے ساتھ بنا ہوا شناختی کارڈ لازمی دیکھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علاج کرنے والے معالج کو تسلی ہو کہ وہ جس کا علاج کر رہا ہے اس کا کسی قسم کا استحصال تو نہیں کیا جا رہا۔ نکاح نامہ اس لیے قابل قبول نہیں ہے کہ کچھ لوگ جعلی نکاح نامہ بھی بنوا سکتے ہیں۔‘  
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’جو بھی قواعد بنتے ہیں ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوتی ہے۔ اگر کسی نے کوئی غلطی کی تھی اب اس کی وجہ سے سب کو مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘  
پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے لیے قائم نیشنل کمیشن فار سٹیٹس آف ویمن کے لیگل ایڈوائزر شرافت علی ایڈووکیٹ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’کمیشن پاکستان میں بچوں کی شادیوں کے سخت خلاف ہے اور اس کی مذمت بھی کرتا ہے۔ ہم نے کم عمری ی شادیوں پر پابندی کا بل بھی تیار کیا ہے جس کی وزارت مذہبی امور نے بھی توثیق کر دی ہے۔ وہ اگلی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔‘  
تاہم انھوں نے کہا کہ ’جہاں تک ایک شادی شدہ بچی کو علاج کی سہولت فراہم کرنے سے انکار کا کا تعلق ہے یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ معاملہ پمز ہسپتال کے متعلق اس سے پہلے بھی ہمارے علم میں آ چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہسپتال کا کام علاج کرنا ہے اور اسے ایسی کسی بحث میں پڑے بغیر ہی علاج کی سہولت فراہم کرنی چاہیے۔‘
شرافت علی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’کمیشن اپنے قانون کے تحت کچھ معاملات میں حکومت کو ایڈوائس دیتا ہے اور جہاں پر خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہو اور ہمارے پاس شکایت آئے تو ہم متعلقہ اداروں کو اس شکایت کی روشنی میں ہدایات جاری کرتے ہیں۔‘  
کمیشن کی سابق چیئرپرسن خاور ممتاز نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’ہسپتالوں کا کام علاج فراہم کرنا ہے مورل پولیسنگ نہیں۔ ہسپتال نے بچی کو علاج کی سہولت فراہم کرنے سے انکار کرکے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔‘  

وزارت صحت کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایسا کوئی معاملہ کبھی ہمارے نوٹس میں نہیں آیا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ ’بچی علاج کے لیے آئی تھی۔ اسے علاج کی ضرورت تھی۔ کسی غیر قانونی کام کا تقاضا نہیں کیا تھا تو صحت عامہ کے ادارے کو سب سے پہلے اسے علاج کی سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ اس کے لیے شوہر کا شناختی کارڈ ہی کافی تھا۔ نکاح نامہ کا تقاضا بھی غلط ہوتا۔ یہاں تک کہ وہ شادی شدہ نہ بھی ہوتی تب بھی ہسپتال علاج سے انکار نہیں کرسکتا۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’علاج فراہم کرنا ریاست کا کام ہے، لیکن ہمارے ہاں حکومتوں اور اداروں و لوگوں کی ذاتی زندگیوں اور معاملات میں جھانکنے کا شوق ہے۔ اس شوق میں اپنا اصل کام بھول کر تفتیش شروع کر دیتے ہیں۔‘ 

شیئر: