Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جنگل کا دیوتا‘ کہلانے والے انڈیا کے بدنام زمانہ ڈاکو ویرپن کی کہانی

ویرپن کے ہاتھ جن شخصیات کے خون سے رنگے تھے ان میں 44 پولیس اور فاریسٹ افسر شامل ہیں (فوٹو: گیٹی امیجز)
120 افراد کے قاتل، ہاتھی دانت اور صندل کی لکڑی کی سمگلنگ کرنے والے انڈیا کے بدنام زمانہ ڈاکو ویرپن نے 80 کی دہائی سے لے کر نئی صدی کی شروعات تک تامل ناڈو اور کرناٹک کی حکومتوں کو ناکوں چنے چبوائے۔
ویرپن کے ہاتھ جن شخصیات کے خون سے رنگے تھے ان میں 44 پولیس اور فاریسٹ افسر شامل ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے ایک ہزار ہاتھیوں کے دانت حاصل کرنے کے لیے اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا اور ہزاروں صندل کے درخت کاٹ کر لاکھوں ٹن لکڑی غیر قانونی طریقے سے بیچ دی جس کی مالیت کروڑوں روپے تھی۔
ویرپن بدنام زمانہ انڈین ڈاکو اور شکاری تھے جو ستھیامنگلم وائلڈ لائف سینکچری کے جنگلات اور آس پاس کے علاقوں میں واردات کرتے تھے۔ یہ علاقہ جنوبی انڈیا کی ریاستوں کرناٹک، تامل ناڈو اور کیرالہ تک پھیلا ہوا تھا۔
ان کی سرگرمیاں بنیادی طور پر ان ریاستوں کے گھنے جنگلات اور دور دراز علاقوں تک مرکوز تھیں۔ وہ گالوں تک پھیلی اپنی بڑی بڑی مونچھوں کی وجہ سے بھی منفرد پہچان رکھتے تھے اور اخبار میں اُن کی تصویر شائع ہونے کے بعد کئی مردوں نے اُن کے اس سٹائل کو اپنایا تھا۔
ویرپن تقریباً تین دہائیوں تک سرگرم رہے، انہوں نے ان جنگلوں کو مختلف غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے اپنے اڈے کے طور پر استعمال کیا۔ وہ  صندل کی لکڑی، ہاتھی دانت اور جنگلی حیات کی سمگلنگ کے ساتھ ساتھ اغوا اور قتل میں بھی ملوث رہے۔
گھنے جنگلوں اور ناہموار علاقوں میں باآسانی رہنے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے انہیں پکڑنا مشکل ہو گیا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ ’اُن کے لیے جنگل میں چلنا ایسا سہل تھا جیسے کوئی بھی شخص نیند میں اپنے بستر سے اُٹھ کر رات کو بیت الخلاء آرام سے پہنچ جاتا ہے۔‘

ویرپن نے ایک ہزار ہاتھیوں کے دانت حاصل کرنے کے لیے اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا (فوٹو: گیٹی امیجز)

تامل زبان میں ویرپن سے منسلک ایسی کئی کہاوتیں اور اقوال مشہور ہو گئے تھے جو لوگ عام زندگی میں استعمال کرنے لگے تھے۔ مثال کے طور پر ’ویرپن واژگا۔ ‘ یہ نعرہ ’ویرپن زندہ باد‘ کا مترادف ہے اور ان لوگوں میں مقبول تھا جن کی ویرپن مدد کیا کرتے تھے۔
نیٹ فلیکس کی دستاویزی فلم میں ویرپن کو پکڑنے کی20 سال سے زائد عرصے کی جد وجہد میں شامل لوگوں کے بیانات (انٹرویو) شامل ہیں۔ ان میں تاوان کے لیے اغواء کیئے جانے والے، پولیس اور محکمہ جنگلات سے تعلق رکھنے والے افسران، سیاسی حکام اور خاص طور پر ویرپن کی اہلیہ متھولکشمی کا انٹرویو بھی شامل ہے۔ 
متھولکشمی کو تامل زبان میں ’ویرمل‘ کے نام سے جانا جاتا تھا جس کا مطلب ’ویرپن کی عورت/ بیوی‘ لیا جاتا تھا۔ 80 کی دہائی میں جب دونوں کی شادی ہوئی تو متھولکشمی کی عمر محض 15 سال تھی جبکہ ویرپن کی عمر 39 سال تھی۔
یہ محبت کی شادی تھی جس کے بعد متھولکشمی نے دو بیٹیوں ودیا اور پرابھا کو جنم دیا جنہوں نے اپنے باپ کو ساری زندگی میں کچھ ہی دن کے لیے دیکھا۔ متھولکشمی نے ویرپن کا بھرپور ساتھ دیا لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب ویرپن کو اپنی ہی بیوی پر مخبری کا شک ہوا۔
تامل ناڈو اور کرناٹک کی حکومتوں نے ویرپن کو پکڑنے کی مسلسل ناکام کوششوں کے بعد 1991 میں ایس ٹی ایف ( سپیشل ٹاسک فورس) بنائی جس میں افرادی قوت ایک وقت میں 5000 اہلکاروں تک جا پہنچی مگر پھر بھی ویرپن ان کی پہنچ سے بہت دور رہے۔
لوگ اُنہیں ’جنگل کا دیوتا‘ مانتے تھے اور جادوئی طاقتوں کا حامل قرار دیتے تھے۔ انہوں نے کئی جگہ لوگوں کے حقوق کی بات کی اور ان کی مدد بھی کی جس کی وجہ سے کچھ لوگ انہیں فرشتہ گردانتے تھے مگر 120 افراد کا قتل بھی انہی کے ہاتھوں ہوا جن کے خاندان اُنہیں شیطان صفت مانتے تھے۔

ویرپن گالوں تک پھیلی اپنی بڑی بڑی مونچھوں کی وجہ سے بھی منفرد پہچان رکھتے تھے (فوٹو: گیٹی امیجز)

ایک رہا ہونے والے مغوی کا بیان ہے کہ ’ویرپن جنگل کو اتنا جانتا تھا کہ جیسے پیدا ہی وہیں ہوا ہو۔ ایک دن وہ بہت خوش تھا تو اس نے ایک پلیٹ میں تھوڑا سا پانی ڈالا۔ پھر ایک درخت سے کچھ پتّے توڑ کر ہاتھوں سے ان کو مسلا اور ان سے نکلنے والے رس کے چند قطرے اس پلیٹ میں پڑے پانی پر ٹپکائے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اس پلیٹ میں ایک کیک نمودار ہو گیا۔ شاید وہ واقعی جنگل کا دیوتا تھا۔‘
اس فلم کے ہدایت کار سلوامنی سلواراج ہیں جو اس سے پہلے مشہور فلم ’لائف آف پائی‘ میں معاون ہدایت کار رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ویرپن کی زندگی کی اس کہانی نے ان کو ہمیشہ سے اپنے سحر میں جکڑے رکھا ہے اسی لیے انھوں نے یہ فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔’
تامل زبان میں فلم کا ٹائٹل سونگ ’پوڈا‘ (او ایس ٹی) فلم کے مرکزی خیال کے عین مطابق ہے جبکہ پس پردہ موسیقی بھی قابلِ تعریف ہے اور اگر اچھے ساؤنڈ سسٹم پر یہ فلم دیکھی جائے تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔
آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے 8 کی ریٹنگ لینے والی یہ دستاویزی فلم نیٹ فلیکس پر نمبر 1 کی دوڑ میں تیسرے نمبر پر پہنچ چکی ہے۔ اس کی وجہ ناقدین کی طرف سے ملنے والی پانچ میں سے 5۔3 کی ریٹنگ کے علاوہ مستند خبروں اور واقعات پر مشتمل مواد بھی ہے جو اس فلم میں دکھایا گیا ہے۔
ویرپن کی زندگی پر پہلے بھی دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں مگر چار اقساط پر مشتمل یہ فلم سب سے متوازن ہے۔ یہ دیکھ کر آپ فیصلہ کر پائیں گے کہ کیا ویرپن ایک سفاک ڈاکو اور قاتل تھا یا واقعی جنگل کا طاقتور دیوتا؟

شیئر: