Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دھڑ سے مفلوج سعودی نے ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کر لیا

میری تربیت میں خود اعتمادی شامل تھی۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)
دھڑ سے مفلوج ہونے کے باوجود سعودی شہری سعد العتیبی نے  ایم بی بی ایس ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کر لیا۔ 
العربیہ نیٹ کے مطابق ڈاکٹر سعد العتیبی نے اپنی زندگی کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’بچپن سے ہی میری تربیت میں خود اعتمادی شامل تھی۔ ہر کام چیلنج کے  طور پر لیتا اور صبر و تحمل کے ساتھ اسے منطقی انجام تک پہنچاتا تھا۔ میری زندگی کی ڈکشنری میں مایوسی اور شکست کے الفاظ نہیں تھے۔‘

لوگوں کے دکھ دیکھ کر اپنے درد چھوٹے نظر آئے۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)

العتیبی نے کہا کہ ’ثانوی سکول سے فراغت سے قبل بارش کے  دوران ٹریفک حادثے کا شکار ہوا میری گاڑی الٹ گئی اور کمر کا ایک مہرا ٹوٹ گیا جبکہ دیگر مہروں میں ٹوٹ پھوٹ واقع ہوئی۔ گاڑی میں موجود میرا  دوست حادثے میں انتقال کر گیا جبکہ میرا آدھا دھڑ مفلوج  ہو گیا۔‘
العتیبی نے بتایا کہ ’حادثے نے مجھے بستر سے لگا دیا۔  معذوری کا پہلا سال اس انداز سے گزرا کہ مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ میرا آدھا دھڑ مفلوج ہے۔ ہر دن اس لمحے کا انتظار کرتا جب اپنے قدموں پر چل سکوں۔ اس کے بعد کئی معذوروں سے میرا ملنا ہوا تو مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ وہ گاڑیوں اور گھروں کے مالک ہیں اور جس دنیا میں وہ زندگی گزار رہے ہیں معاشرے  کے بیشتر افراد اس سے ناواقف ہیں۔ مجھے ان کی زندگی دیکھ کر زندہ رہنے کا حوصلہ ملا‘۔ 

والد کے انتقال کے بعد گھر کا ذمہ دار میں ہی تھا۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)

العتیبی کا کہنا تھا کہ ’معذوری کے ابتدائی برسو ں کے  دوران ذہنی مشکل سے دوچار رہا۔  لمحوں میں آدھے جسم کا مفلوج ہوجانا بڑا سانحہ تھا بالاخر میں نے  اپنی اس کیفیت پر قابو پایا اور رفتہ رفتہ میں نے دوسروں کو دیکھ کر زندہ رہنا سیکھ لیا۔ دوسروں کے مصائب دیکھ کر اپنی پریشانی  کم نظر آئی اس طرح میری ذہنی حالت بہتر سے بہتر ہونے لگی‘۔ 
ڈاکٹر سعد العتیبی نے بتایا کہ ’حادثے کے بعد ایک سال تک علاج کراتا رہا متعدد ہسپتالوں کے چکر لگائے۔ امیر سلطان میڈیکل سٹی بھی آنا جانا ہوا یہاں میں نے بہت سارے ایسے لوگ دیکھے جو معذوری کے باوجود زندگی میں کچھ نہ کچھ کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ اس صورتحال نے مجھے یہ اصول اپنانے پر آمادہ کیا کہ ’معذوری جسم کی نہیں بلکہ عقل کی ہوتی ہے‘۔‘ 

حادثے میں میرا دوست دنیا سے رخصت ہوگیا۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)

العتیبی نے کہا کہ ’اللہ کے کرم اور گھر والوں کی مدد سے فیکلٹی آف میڈیسن میں داخلہ ہوگیا۔ عزیزوں اور دوستوں نے میرا حوصلہ بڑھایا۔ شروع میں ڈپریشن کا شکار بھی ہوا مگر آخر کار تمام رکاوٹوں پر قابو پانے میں کامیاب رہا‘۔ 
العتیبی نے بتایا کہ ’ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ملازمت تلاش کرنے لگا۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کا ذمہ  دار میں ہی تھا۔ بالاخر مجھے ملازمت مل گئی اور ایمرجنسی وارڈ میں میری تعیناتی ہوگئی۔ پھر میں نے امراض اطفال میں ماسٹرز کیا‘۔ 
العتیبی نے کہا کہ ’مجھے یہ سوچ بڑی خوشی دیتی ہے کہ ماں باپ اپنے بچے کو امراض اطفال کے ماہر کے پاس لے کر آتے ہیں۔ وہ اللہ کے بعد ڈاکٹر ہی کو اپنا مسیحا مانتے ہیں بچہ صحت یاب ہوتا ہے تو اس وقت ڈاکٹر کے لیے والدین کی  ممنونیت بھری نگاہ خوشی کا وہ  احساس دیتی ہے جسے انسان کسی بھی صورت میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا کہ اس ڈاکٹر نے بچے کی  تکلیف دور کرنے کے سلسلے  میں جس قدر محنت کی ہوتی ہے  وہ سب کچھ بھول جاتا ہے‘۔
 
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے اردو نیوز گروپ جوائن کریں

شیئر: