Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فضائی آلودگی سے پاکستانیوں کی اوسط عمر’سات سال تک کم‘ ہو سکتی ہے

ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی سے نہ صرف اوسط عمر کم ہورہی ہے بلکہ ملک کی بڑی آبادی بیماریوں کا بھی شکار ہو رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں فضائی آلودگی نہ صرف انسانی صحت پر براہ راست اثر انداز ہو رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے انسان کی اوسط عمر میں بتدریج کمی بھی واقع ہو رہی ہے.
 شکاگو یونیورسٹی کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے حال ہی میں سامنے آنے والی ایک نئی رپورٹ کے مطابق آنے والے برسوں میں فضائی آلودگی کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث پاکستان میں رہنے والوں کی اوسط عمر ممکنہ طور پر کم از کم سات سال تک کم ہوسکتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے شہر لاہور، شیخوپور  اور قصور سمیت پشاور میں رہنے والے فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ  متاثر ہو رہے ہیں۔
 رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 24 کروڑ آبادی ان خطوں میں رہتی ہے جہاں سالانہ اوسط ذراتی آلودگی کی سطح عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے رہنما اُصولوں سے کہیں زیادہ ہے۔
98.3 فیصد پاکستانی ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں ہوا کا معیار 15 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر کی انتہائی خطرناک حد سے زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب، اسلام آباد، اور خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثرہ خطوں میں شامل ہیں۔ ان خطوں میں 65.5 ملین عوام ڈبلیو ایچ او کے رہنما اصولوں کے مطابق عمر کے اوسط متوقع 3.7 سے 4.6 سال سے محروم ہوسکتے ہیں۔
لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں انوائرنمنٹل سائنس ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر عارفہ طاہر نے اُردو نیوز کو بتایا کہ فضائی آلودگی سے ہماری اوسط عمر بہت پہلے کم ہوچکی ہے۔
’جن علاقوں میں فضائی آلودگی زیادہ ہے وہاں پر حالات مزید خراب نظر آ رہے ہیں اور وہاں اوسط عمر سات سے آٹھ سال تک کم ہوسکتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں فیول کا معیار بہت ناقص ہے۔ جب تک فیول کوالٹی بہتر نہیں ہوتی تب تک فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنا مشکل ہے۔‘
 ماحولیاتی ابلاغ کے ماہر اور پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر شفیق کمبوہ گذشتہ کئی سالوں سے اس ایشو پر تحقیق کر رہے ہیں۔

98.3 فیصد پاکستانی ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں ہوا کا معیار 15 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر کی انتہائی خطرناک حد سے زیادہ ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مختلف بین الاقوامی جرائد میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور فضائی آلودگی پر تحقیقی مقالے شائع کیے ہیں۔ ڈاکٹر شفیق کمبوہ نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے لیے یہ اعداد و شمار خوفناک نہیں ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے ریاستی اور انتظامی اداروں کے ہاں سیاسی عزم کا فقدان ہے۔
’اس وجہ سے پاکستان جیسے ممالک میں عوام کے مقدر میں اسی طرح کی انتہائی آلودہ  فضا ہے اور وہ اس طرح کے خطرناک فضا میں سانس لیتے آرہے ہیں۔‘
پاکستان کو عموماً آلودہ ترین ملکوں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے اور لاہور کو دنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر قرار دیا جاتا ہے۔
شفیق کمبوہ بتاتے ہیں کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں لوہا پگلانے کے لیے بے شمار بھٹیاں اور فیکٹریاں لگائی گئیں ہیں۔ ’ان فیکٹریوں میں لوہا پگلانے کے لیے کاربن پاؤڈر کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے حکومتی سطح پر پالیسی بھی وضع کی گئی ہے لیکن تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔
شکاگو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر ڈبلیو ایچ او کی تجویز کردہ سالانہ پانچ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر کے حد پر عمل کیا جائے تو اوسط عمر 3.9 سال تک بڑھ سکتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عارفہ طاہر کے مطابق پاکستان میں فضائی آلودگی کی کئی وجوہات ہیں لیکن انہیں حکومتی عدم دلچسپی سمجھ نہیں آتی۔
’مجھے نہیں معلوم کہ ریاستی سطح پر ہم کیوں عدم دلچسپی کا شکار ہیں۔ یہ اتنا سنگین معاملہ ہے کہ ہمیں فوراً ایمرجنسی لگا کر اسے کنٹرول کرنا چاہیے۔‘
ڈاکٹر شفیق کمبوہ بھی اس کی وجوہات سیاسی قیادت کی عدم دلچسپی اور ملک میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق آگاہی کے فقدان کو بتاتے ہیں۔
’پاکستان میں قومی و صوبائی سطح پر پالیسی تو وضع کر دی جاتی ہے تاہم اس پر عملدرآمد کے لیے محکماتی تحریک نہیں چلائی جاتی۔‘

پاکستان کو عموماً آلودہ ترین ملکوں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے اور لاہور کو دنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر قرار دیا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے بقول 'اب اگلے مہینے سے پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ میں چاول کی فصل کی کٹائی ہوگی۔ کسان اپنی آسانی کے لیے چاول کی مڈھی راتوں رات جلا دیتے ہیں۔ اس کا دھواں نہ صرف سموگ کا باعث بنتا ہے بلکہ ہمسایہ ملک انڈیا سمیت سری لنکا بھی متاثر ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے نہ تو کسانوں کو آگاہی فراہم کی جاتی ہے اور نہ ہی ہمارے ادارے حرکت میں آتے ہیں۔
ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کے اعداد و شمار کے مطابق 1998 سے 2021 تک پاکستان میں اوسط سالانہ ذرات کی آلودگی میں 49.9 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے متوقع عمر میں 1.5 سال کی کمی واقع ہوچکی ہے۔
اسی طرح اگر آلودگی موجودہ سطح پر برقرار رہتی ہے تو لوگوں کی عمر 2.7 سے 3.6 سال تک کم ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر شفیق کمبوہ بتاتے ہیں کہ فضائی آلودگی سے نہ صرف اوسط عمر کم ہو رہی ہے بلکہ ملک کی بڑی آبادی بیماریوں کا بھی شکار ہو رہی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عارفہ طاہر مانتی ہیں کہ فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔
’اس حوالے سے کافی تحقیق ہوچکی ہے کہ خواتین زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ مجموعی طور پر ہماری زرعی معیشت بھی متاثر ہو گی لیکن حاملہ خواتین پر فضائی آلودگی کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے کیونکہ ان کی حالت ویسے بھی حساس ہوتی ہے اور جب انہیں سانس لینے کے لیے معیاری ہوا ہی نہ ملے تو وہ زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔‘
’اس کے بعد ہماری لیبر کلاس زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ مختلف پیسٹیسائیڈز کا عمل دخل بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس کی وجہ سے کینسر کی شرح بھی بڑھ چکی ہے۔‘
ڈاکٹر شفیق کمبوہ کے مطابق نہ صرف حکومتی و ریاستی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی بے احتیاطی برتی جاتی ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عارفہ طاہر نے خدشہ ظاہر کیا کہ فضائی آلودگی کے باعث مستقبل میں پاکستان کو کئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’ہمارے دیہاتوں میں خواتین گوبر جلا کر کھانا بناتے ہیں جس کی وجہ سے آلودگی وجود میں آتی ہے اور خواتین زچہ و بچہ کی بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہیں اور وقت سے پہلے موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔‘
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے رہنماء اصولوں پر عمل کرنے سے متوقع عمر میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ان اصولوں پر عملدرآمد سے کراچی کے رہائشیوں کی عمر میں 2.7 سال جبکہ لاہور اور اسلام آباد کے رہائشیوں ک عمر میں بالترتیب 7.5 اور 4.5 سال اضافہ ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر شفیق کمبوہ کا کہنا ہے کہ یہ رہنما اصول لوگوں تک نہیں پہنچ پاتے اور نہ ہی حکومت کے سامنے لائے جاتے ہیں کیونکہ میڈیا اس حوالے سے عدم دلچسپی دکھاتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عارفہ طاہر نے خدشہ ظاہر کیا کہ فضائی آلودگی کے باعث مستقبل میں پاکستان کو کئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
’کورونا کے بعد ہر ملک میں پوچھا جاتا ہے کہ آپ کسی ایسے ملک سے تو نہیں آئے جہاں وبائی امراض پھیلے ہیں؟ تو خدانخواستہ مجھے لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں فضائی آلودگی کے باعث ہم کسی ایسی پابندی کا شکار نہ ہو جائیں۔‘

شیئر: