Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شریف فیملی کا لندن میں ہنگامی اکٹھ: پارٹی اور صحافی لاعلم کیوں؟

شہباز شریف کو واپس آئے 24 گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے کہ انہیں واپس لندن طلب کر لیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سیاسی صورت حال ایک جمود کے بعد اچانک تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔
ایک طرف مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے 21 اکتوبر کو وطن واپس آنے کا اعلان کر دیا ہے۔
تو الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کروانے کا عندیہ دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ کی طرف سے نیب ترامیم ختم کیے جانے کے بعد درجنوں سیاستدانوں کے مبینہ کرپشن کیسز کھل چکے ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ احتساب عدالتوں میں مقدمات کی واپس کی گئی فائلیں پہنچا دی گئی ہیں۔
تحریک انصاف کی لیڈر شپ یا تو اسیری میں ہے یا روپوش۔ پیپلزپارٹی نے دبے اور کھلے لفظوں میں مسلم لیگ ن کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔ جب سب صحافی اور تجزیہ کار یہ پیشین گوئیاں کر رہے تھے کہ نواز شریف کے لیے سٹیج تیار ہو چکا ہے تو اس سارے ہنگام میں دو تین روز میں ایسے واقعات ہوئے ہیں جنہوں نے اچانک تیز گام تجزیوں کو وہیں روک دیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے جب واپسی کا اعلان کیا تو اس کے بعد پاکستان میں ان کی جماعت نے تیاریاں شروع کر دیں۔
خود نواز شریف نے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں منگل کے روز کارکنوں سے خطاب میں دو جرنیلوں اور چار ججوں کے احتساب کی بات کی تھیں جنہوں نے  مبینہ طور پر ان کی حکومت کے خلاف سازش کی۔ جب نواز شریف یہ بیان دے رہے تھے تو شہباز شریف وزارت عظمیٰ ختم ہونے کے بعد لندن میں ایک مہینہ گزارنے کے بعد پاکستان واپس آریے تھے جبکہ ادھر سے مریم نواز لندن جانے کے لیے تیار بیٹھی تھیں۔
شہباز شریف کو واپس آئے ابھی 24 گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے کہ انہیں نواز شریف نے واپس لندن طلب کر لیا۔
جمعرات کی صبح مریم نواز کا ٹکٹ پہلے ہی بک تھا شہباز شریف نے بھی ٹکٹ بک کروایا اور چچا بھتیجی علیحدہ علیحدہ لندن کی طرف سفر کر رہے ہیں جہاں جمعہ کے روز تینوں کی ون آن ون ملاقات طے ہے۔

جب نواز شریف نے واپسی کا اعلان کیا تو اس کے بعد پاکستان میں ان کی جماعت نے تیاریاں شروع کر دی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

شریف خاندان کے اس اچانک ہونے والے لندن میں اکٹھ پر نواز شریف کے ایک بہت ہی قریبی ساتھی نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ ایسی صورت حال ہے جس کا پارٹی کے اندر کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے جو کوئی بھی کہ رہا ہے کہ اسے پتا ہے تو وہ درست بات نہیں کر رہا ہے۔ میں میاں صاحب کے بہت قریب ہوں میرے علم میں کچھ بھی نہیں ہے بلکہ پارٹی کے اعلی قیادت بھی لاعلم یے۔ جو کچھ بھی وہ نواز شریف شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان ہے لیکن جو کچھ بھی ہے ، ہے غیر معمولی۔‘
پاکستانی سیاست پر اتھارٹی سمجھے جانے والے سینئر صحافی سہیل وڑائچ سے جب اردو نیوز نے اس صورت حال پر تجزیہ لینے کے لیے رابطہ تو ان کا کہنا تھا ’یہ صورت حال ایسی ہے کہ اس پر ابھی کچھ بھی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔ میں خود بھی صورت حال ابھی دیکھ رہا ہوں۔‘
مسلم لیگ ن کی قیادت سے جب رابطہ کیا گیا تو یا وہ  تبصرے کے لیے دستیاب نہیں ہے اور جو دستیاب ہیں عطاء اللہ تارڑ اور رانا مشہود ، وہ اس صورت حال سے لاعلم ہیں کہ لندن میں شریف فیملی کے اچانک اکٹھ کا مطلب کیا ہے۔
معروف صحافی اور ٹی وی  اینکر  اجمل جامی کا کہنا ہے کہ ’یہ درست بات ہے کہ اس بار کسی کے پاس کوئی درست معلومات نہیں ہے۔ تاہم موجودہ صورت حال اور واقعات کا جائزہ لیا جائے تو بار بار بار ذہن اس طرف جاتا ہے کہ نواز شریف نے اپنی تقریر میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے جو احتساب کی بات کی ہے اس سے تاثر یہ آیا تھا کہ وہ اپنے وطن واپسی کے بیانیے کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔’
’ہو سکتا ہے کہ شہباز شریف جو فائر فائٹر سمجھے جاتے ہیں وہ سیز فائر کے لیے متحرک ہوئے ہوں۔ یہ صرف ایک رائے ہو سکتی ہے کیونکہ بظاہر اور کوئی چیز دیکھائی نہیں دے رہی ہے۔‘

شیئر: