پاکستان کی سیاسی صورت حال ایک جمود کے بعد اچانک تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔
ایک طرف مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے 21 اکتوبر کو وطن واپس آنے کا اعلان کر دیا ہے۔
تو الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کروانے کا عندیہ دے دیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
نواز شریف کی واپسی: ’جو بندے نہیں لائے گا اسے ٹکٹ نہیں ملے گا‘Node ID: 797186
سپریم کورٹ کی طرف سے نیب ترامیم ختم کیے جانے کے بعد درجنوں سیاستدانوں کے مبینہ کرپشن کیسز کھل چکے ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ احتساب عدالتوں میں مقدمات کی واپس کی گئی فائلیں پہنچا دی گئی ہیں۔
تحریک انصاف کی لیڈر شپ یا تو اسیری میں ہے یا روپوش۔ پیپلزپارٹی نے دبے اور کھلے لفظوں میں مسلم لیگ ن کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔ جب سب صحافی اور تجزیہ کار یہ پیشین گوئیاں کر رہے تھے کہ نواز شریف کے لیے سٹیج تیار ہو چکا ہے تو اس سارے ہنگام میں دو تین روز میں ایسے واقعات ہوئے ہیں جنہوں نے اچانک تیز گام تجزیوں کو وہیں روک دیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے جب واپسی کا اعلان کیا تو اس کے بعد پاکستان میں ان کی جماعت نے تیاریاں شروع کر دیں۔
خود نواز شریف نے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں منگل کے روز کارکنوں سے خطاب میں دو جرنیلوں اور چار ججوں کے احتساب کی بات کی تھیں جنہوں نے مبینہ طور پر ان کی حکومت کے خلاف سازش کی۔ جب نواز شریف یہ بیان دے رہے تھے تو شہباز شریف وزارت عظمیٰ ختم ہونے کے بعد لندن میں ایک مہینہ گزارنے کے بعد پاکستان واپس آریے تھے جبکہ ادھر سے مریم نواز لندن جانے کے لیے تیار بیٹھی تھیں۔
شہباز شریف کو واپس آئے ابھی 24 گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے کہ انہیں نواز شریف نے واپس لندن طلب کر لیا۔
جمعرات کی صبح مریم نواز کا ٹکٹ پہلے ہی بک تھا شہباز شریف نے بھی ٹکٹ بک کروایا اور چچا بھتیجی علیحدہ علیحدہ لندن کی طرف سفر کر رہے ہیں جہاں جمعہ کے روز تینوں کی ون آن ون ملاقات طے ہے۔
