Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کے اسیر رہنما کے بیٹے عمار عباد کی موت: وجہ پولیس کا خوف یا بیماری؟

ہپستالوں کے ریکارڈ اور میڈیکل رپورٹس سے تو یہ بات کسی حد تک واضع ہوتی ہے کہ عمار عباد ایک موذی مرض کا شکار تھے (فوٹو: ٹوئٹر)
پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈ عباد فاروق کے نو سالہ بچے عمار عباد کی وفات کے بعد سوشل میڈیا پر اس خبر کا بہت شور ہے۔ ایک طرف تحریک انصاف کے حامی اس  خبر کو ریاستی جبر کی علامت کے طور پر پیش کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی مخالفین اس کو محض پراپیگنڈہ قرار دے رہے ہیں۔
عمار عباد کو پیر کے روز لاہور میں ان کے آبائی علاقے گنج بخش ٹاون میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کے جنازے پر ان کے والد عباد فاروق جو پولیس کی تحویل میں ہیں ان کو بھی پیرول پر رہا کر کے جنازے میں شرکت کی اجازت دی گئی۔
ان کی موت پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جاری آفیشل بیان میں کہا گیا ہے کہ ’میاں عباد فاروق کے نابالغ بچے کی موت ایک بے رحمانہ قتل، اس کا ذمہ دار وہ جنگلی نظام ہے جو اس وقت ریاست پر قابض ہے۔ آئین و قانون کی بالادست حیثیت کو ختم کر کے سیاسی کارکنان اور ان کے اہل خانہ کے لیے ملک کی زمین تنگ کر دی گئی ہے۔‘
تحریک انصاف نے چیف جسٹس آف پاکستان سے عمار عباد کی موت سے جڑے حقائق کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
دوسری طرف وفات پانے والے عمار عباد کی صحت کے حوالے ایسی رپورٹ بھی منظر عام پر آئی ہیں جن میں ڈاکٹروں نے ان کے اندر ایک اعصابی بیماری کی نشاندہی کر رکھی ہے جو کہ ایک جان لیوا بیماری تصور کی جاتی ہے۔

نو سالہ بچہ کس بیماری میں مبتلا تھا؟

عمار عماد کے چچا تصور چوہدری جو کہ پنجاب کے محکمہ بورڈ آف ریوینیو کے ترجمان کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’عمار کو کسی قسم کی کوئی بیماری لاحق نہیں تھی۔ وہ ایک متحرک بچہ تھا نو مئی کے واقعات کے بعد پولیس نے جب 16 مئی کو عباد فاروق کو گرفتاری کے لئے چھاپے مارے تو بچے کو دماغی عارضہ لاحق ہوا۔ وہ اس سے پہلے بالکل ٹھیک تھا۔‘

دوسری طرف پولیس اس طرح کے الزامات اور گھر میں بار بار چھاپوں کی تردید کر رہی ہے۔
آئی پنجاب پولیس کے ترجمان سید مبشر حسن کا کہنا ہے کہ ’پولیس پر بے بنیاد الزام لگائے جا رہے ہیں بچہ پہلے ہی موذی مرض میں مبتلا تھا۔ بچے کی موت سے پولیس کا یا کسی اور کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔‘
خیال رہے کہ عباد فاروق کو پولیس نے نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں 10 مئی کو گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ جیل میں ہیں۔ تاہم ان کے خاندان کے افراد کا الزام ہے کہ پولیس اس کے بعد بھی گھر پر چھاپے مارتی رہی ہے۔
گذشتہ چند مہینوں سے عمار عباد بیمار تھے اور اس بات کی تصدیق لاہور کے چلڈرن اور اتفاق ہسپتال کے ریکارڈ سے ہوتی ہے کہ وہ وہاں داخل تھے۔ اردو نیوز کو دستیاب ان کی میڈیکل رپورٹس کے مطابق عمار عباد کو ایک اعصابی بیماری سب اکیوٹ سیکلروسنگ پینیسیفلائٹس یا ایس ایس پی ای تھی۔

میڈیکل رپورٹ لاہور کے چلڈرن ہسپتال کی مرتب کردہ ہے اور اس پر 31 جولائی کی تاریخ درج ہے۔ اسی طرح وفات سے چند دن قبل جب انہیں اتفاق ہسپتال داخل کیا گیا تو انتظامیہ کے مطابق انہیں ڈبل نمونیا کے علاج کے لیے لایا گیا تھا تاہم ان کی عصبی بیماری کے سبب ڈاکٹر انہیں تواتر سے الگ سے دیکھ رہے تھے۔

ایس ایس پی ای کیا بیماری ہے؟

ہپستالوں کے ریکارڈ اور میڈیکل رپورٹس سے تو یہ بات کسی حد تک واضع ہوتی ہے کہ عمار عباد ایک موذی مرض کا شکار تھے لیکن ان کی موت کن حالات میں ہوئی اس پر متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ان کی عصبی بیماری کی معالج ڈاکٹر شمائلہ سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے ان کی بیماری کی تو تصدیق کی تاہم اس موضوع پر بات کرنے سے اجتناب کیا۔
اس بیماری کے حوالے سے جاننے کے لیے جب شیخ زید ہسپتال کے شعبہ اطفال نیورالوجی کی سربراہ ڈاکٹر لبنی ریاض سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’سب اکیوٹ سیکلروسنگ پینیسیفلائٹس یا ایس ایس پی ای ایک لاعلاج اور خطرناک بیماری ہے۔ یہ بنیادی طور پر بچوں کو خسرہ کے ساتھ لاحق ہوتی ہے۔ بچے کو اگر دو سال یا اس سے زیادہ کی عمر میں خسرہ کا حملہ ہو تو اس بات کے چانسز ہوتے ہیں کہ وائرس دماغ کی طرف چلا جائے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’خسرے کے عام علاج سے مریض ٹھیک ہو جاتا ہے لیکن اگر اسے ایس ایس پی ای ہو گیا ہے تو اس بات کا سراغ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا کوئی طریقہ نہیں یہ کچھ سالوں بعد آٹھ نو سال کی عمر میں اپنی علامتیں اس وقت ظاہر کرتا ہے جب بیماری پوری طرح دماغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔‘

بیماری کی علامتیں:

ڈاکٹر لبنی ریاض نے بتایا کہ اس بیماری میں سب سے پہلے بچے کا سمجھ بوجھ  پر اثر پڑنا شروع ہوتا ہے۔

عباد فاروق پاکستان تحریک انصاف لاہور کے رہنما اور ٹکٹ ہولڈر ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر عباد فاروق)

’کاگنیٹیو ڈس ایبیلیٹی کے بعد آہستہ آہستہ دیگر علامات بھی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ بچہ عجیب حرکتیں کرنے لگتا ہے اور حرکت اس کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہوتی اور جلد ہی وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو جاتا ہے۔‘ ڈاکٹر لبنیٰ کے مطابق اگر بیماری کی شدت زیادہ ہو تو مرگی کے دورے بھی شروع ہو جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ دیگر بیماریاں بھی حملہ آور ہو جاتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایس ایس پی ای 99 فیصد ایک لاعلاج مرض ہے اور تشخیص سے لے کر بچہ تین مہینوں سے لے کر چھ سات سال تک مزید زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ منحصر ہوتا ہے کہ بیماری کی تشخیص کس سٹیج پر ہوئی مرض کا شدت کیا ہے اور اس کی منیجمنٹ کیسے کی جا رہی ہے۔‘
عمار عباد کی کہانی میں کچھ پہلووں سے پردہ اٹھنا ابھی بھی باقی ہے۔ کہ ان کی بیماری کی تشخیص کب ہوئی کیونکہ جو رپورٹس اس وقت دستیاب ہیں چاہے وہ ان کے خون کی رپورٹس ہوں جس میں ان کے اندر وائرس کی تصدیق ہوئی یا چلڈرن ہسپتال اور اتفاق ہسپتال میں داخلے کی تاریخیں وہ سب مئی کے مہینے کے بعد کی ہیں۔ اس سے پہلے کا ریکارڈ ابھی تک دستیاب نہیں ہے۔

شیئر: