Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا میاں نواز شریف کے بیانیے نے مسلم لیگ ن کو تقسیم کر دیا ہے؟

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ بیانیے کے مسئلے پر نہ صرف واضح طور پر تقسیم ہے بلکہ اس کے لیے آپشنز بھی محدود ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف نے چند روز پہلے ایک بیان میں فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ریٹائڑ فیض حمید کے علاوہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کو اپنی حکومت گرانے اور عمران خان کو لانے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور آئندہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ان شخصیات کےاحتساب کا اعلان کیا۔
ان کے اس بیان کے فوری بعد سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے اس بات کو آگے بڑھایا اور جنرل باجوہ اور فیض حمید کو قومی مجرم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ ان کا ویسا ہی احتساب ہونا چاہیے جیسا کہ جنرل پرویز مشرف کا ہوا تھا۔
ان بیانات کے فوری بعد مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف جو ایک روز پہلے ہی برطانیہ سے پاکستان پہنچے تھے واپس لندن روانہ ہو گئے اور اسی روز مریم نواز بھی لندن پہنچ گئیں۔
مریم نے روانگی سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ مسلم لیگ نواز انتقام پر یقین نہیں رکھتی تاہم انہوں نے کھل کر نواز شریف کے بیان کی حمایت یا مخالفت نہیں کی۔
لندن پہنچنے کے فوری بعد شہباز شریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابات میں مسلم لیگ نواز کا بیانیہ تعمیر و ترقی کا ہو گا۔ جبکہ پارٹی کے سینیر رہنما اور شریف خٓندان کے اہم فرد اسحاق ڈار نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران سابق جرنیلوں اور ججوں کے احتساب سے متعلق پوچھے گیے ایک سوال کا جواب نہیں دیا اور یہ سوال پوچھے جانے پر وہاں سے چلے گیے۔
مریم نواز نے بھی لندن میں اہم اجلاسوں میں شرکت کے بعد پاکستان واپسی پر ابھی تک اس بارے میں اظہار خیال نہیں کیا اور مسلسل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
پیر کے روز نواز شریف کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے رکن میاں جاوید لطیف نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ شہباز شریف پارٹی کے بیانیے پر اپنی رائے دے سکتے پیں لیکن نواز شریف کے فیصلے پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔
تاہم منگل کے روز جاوید لطیف نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے کہا کہ اگر ادارے کے کچھ افراد کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتے تو ان کو ایک طرف کر کے نو مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے۔
ان تمام بیانات اور ہنگامی دوروں اور اجلاسوں کے بعد تاثر ابھرا ہے کہ مسلم لیگی قیادت انتخابات میں اختیار کیے جانے والے بیانیے پر تقسیم ہے اور فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ انہیں انتخابات میں اینٹی اسٹبلشمنٹ اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے ساتھ جانا چاہیے یا تعمیر و ترقی کے نعرے کے ساتھ۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ بیانیے کے مسئلے پر نہ صرف واضح طور پر تقسیم ہے بلکہ اس کے لیے آپشنز بھی محدود ہیں۔

اس بارے میں جب اردو نیوز نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان زبیر عمر سے پوچھا کہ کیا بیانیے کے مسئلے پر پارٹی تقسیم ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس کو تقسیم نہیں بلکہ پارٹی کے اندر مختلف آراٗ کی موجودگی سمجھا جانا چاہیے۔
زبیر عمر کا کہنا تھا کہ ’اتنی بڑی جماعت میں ہر کوئی اپنا موقف بیان کرتا ہے، لیکن مسلم لیگ نواز کا بیانیہ وہی ہو گا جو پاکستان کے لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عوام اس وقت مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اور مسلم لیگ نواز چاہتی ہے کہ جب ان مسائل کے خاتمے کی بات کی جائے تو عوام کو یہ بھی بتایا جائے کہ وہ کیا حالات تھے اور کن لوگوں کے پیدا کردہ تھے جن کی وجہ سے آج عوام کی یہ حالت ہے۔
’عوام کو پتہ ہونا چاہیئے کہ اگر پراجیکٹ عمران خان نہ لایا جاتا تو آج حالات خراب نہ ہوتے۔ اور جب حالات بہتر کرنے کی بات ہوتی ہے تو ان کا باعث بننے والے امور کی بھی ہوتی ہے۔‘
تاہم واضح بیانیہ اختیار کرنے کے معاملے پر پارٹی میں پائے جانے والے تذبذب اورنواز شریف اور شہباز شریف کے مابین واضح اختلافات کے متعلق سوال پر زبیر عمر نے کہا کہ ’کسی بھی فیصلے پر پہنچنے کے لیے ایک بحث ہوتی ہے۔ کچھ بحث خفیہ ہوتی ہے اور کچھ سامنے ہوتی ہے۔ یہ بحث ہو رہی ہے لیکن مسلم لیگ نواز کا بیانیہ پاکستان کے عوام کے مسائل کا ازالہ کرنے والا ہی ہو گا۔‘
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ بیانیے کے مسئلے پر نہ صرف واضح طور پر تقسیم ہے بلکہ اس کے لیے آپشنز بھی محدود ہیں۔
قومی سیاسی منظر نامے پر گہری نظر رکھنے والی ڈان ٹی وی کی میزبان نادیہ نقی کہتی ہیں کہ بیانیے کے مسئلے پر مسلم لیگ نواز میں واضح تقسیم موجود ہے اور نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کے دھڑے اس بارے میں الگ الگ سوچ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے قریبی لوگ جیسا کہ خواجہ آصف، طلال چوہدری اور جاوید لطیف وغیرہ، وہ نواز شریف کے احتساب والے بیان کے ساتھ تھے جبکہ مسلم لیگ نواز کے اندر لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کے خلاف ہے۔
لیکن لگتا یہ ہے کہ نواز لیگ کو اپنا بیانیہ بدلنا پڑے گا کیونکہ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ اگر جنرل باجوہ کے ساتھ مسئلہ تھا تو پھر ان کی مدت ملازمت میں اضافہ کیوں کیا گیا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ لوگ کہیں گے کہ چار سال پہلے کی بات یہ جماعت آج کیوں کر رہی ہے۔‘
لوگ مسائل پر کی گئی بات سنیں گے نہ کہ ماضی کے معاملات پر اور آج کی بات یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی ہے اور معیشت خراب ہے۔ اور مسلم لیگ نواز پی ڈی ایم کے ذریعے حکومت بنا کر ان تمام حالات کی زمہ دار قرار دی جا رہی ہے اور اس پر اس حوالے سے تنقید ہوتی ہے۔‘

نادیہ نقی کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کا کون سا بیانیہ جیتتا ہےاس کا درست اندازہ نواز شریف کی واپسی پر ہی ہو گا۔ (فوٹو: آئی ایس پی آر)

 ’اس بارے میں مریم نواز کا رویہ بھی محتاط ہے اور انہوں نے اپنے والد نواز شریف کی احتساب والی بات کو آگے برھانے کے بجائے یہ کہا ہے کہ مسلم لیگ نواز انتقام پر یقین نہیں رکھتی۔ جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ نواز شریف ملک سے باہر ہیں اور زیادہ لوگوں سے نہیں ملتے اس لیے ان کو ملک کے اندر لوگوں کے موجودہ خیالات سے زیادہ آگاہی نہیں ہے جبکہ مریم نواز ان کے مقابلے میں پاکستان کے اندر لوگوں سے زیادہ رابطے میں رہتی ہیں اور ان کو ان کی جماعت کے لوگ آ کر بتاتے ہوں گے کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں اور ان کے آج کے مسائل کیا ہیں۔‘
لیکن مسلم لیگ کے پاس مہنگائی پر بات کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے کیونکہ یہ جماعت شہباز شریف کی قیادت میں گزشتہ ڈیڑھ سال ملک کی حکمران رہی ہے اور لوگ اس کو حالات کی خرابی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ایسے میں انہیں تعمیر و ترقی کا بیانیہ ہی لے کر آنا پڑے گا۔‘
 نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نواز کا کون سا بیانیہ جیتتا ہے اور پارٹی کے اندر کون سا دھڑا اپنی بات منوانے میں کامیاب رہتا ہے اس کا درست اندازہ نواز شریف کی وطن واپسی پر ہی ہو گا جب پتہ چلے گا کہ وہ جلسے جلوسوں اور ویسے پارٹی اجلاسوں میں کس بات پر زور دیتے ہیں۔ 
واضح رہے کہ کچھ سیاسی پنڈت نیب کی طرف سے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے خلاف مقدمات کھولے جانے کے عمل کو بھی اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں اور یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انتخابات سے قبل حالات کے تبدیل ہو جانے کی وجہ سے نواز شریف کو واپسی کی تاریخ بھی بدلنی پڑ جائے۔

شیئر: