انہوں نے تمام پارٹی رہنماؤں کو ہدایت کی ہے کہ وہ 21 اکتوبر سے قبل بیرون ملک سفر نہ کریں، اور اپنی تمام تر توجہ عوام کو متحریک کرنے پر دیں۔
مسلم لیگ ن کے صدر نے مزید کہا کہ قائد مسلم لیگ ن سے لندن میں ملاقات کے لیے تشریف لانے والے پارٹی رہنما بھی اپنے پروگرام کینسل کریں اور نواز شریف کے عظیم الشان استقبال کے لیے اپنے حلقوں میں وقت دیں۔
خیال رہے کہ نواز شریف کی 21 اکتوبر کو واپسی کے حوالے سے چند روز قبل اس وقت چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں تھیں جب شہباز شریف کو پاکستان آئے 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے اور وہ واپس لندن چلے گئے۔
سیاسی تجزیہ کار اور صحافی شہباز شریف کی اچانک واپسی کو گوجرانوالہ میں ’کسی اہم شخصیت‘ سے ملاقات کی وجہ قرار دے رہے تھے، لیکن مسلم لیگ ن کے صدر نے لندن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایسی کسی بھی ملاقات کی تردید کی۔
شہباز شریف کی لندن روانگی سے چند روز قبل ہی نواز شریف نے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں کارکنوں سے خطاب میں دو جرنیلوں اور چار ججوں کے احتساب کی بات کی تھیں جنہوں نے مبینہ طور پر ان کی حکومت کے خلاف سازش کی۔
مسلم لیگ ن کے قائد کی واپسی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب الیکشن کمیشن جنوری میں انتخابات کرانے کا اعلان کر چکا ہے اور دوسری جانب سپریم کورٹ کی طرف سے نیب ترامیم ختم کیے جانے کے بعد درجنوں سیاستدانوں کے مبینہ کرپشن کیسز کھل چکے ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ احتساب عدالتوں میں مقدمات کی واپس کی گئی فائلیں پہنچا دی گئی ہیں۔
تحریک انصاف کی لیڈر شپ یا تو اسیری میں ہے یا روپوش، جبکہ پیپلز پارٹی نے دبے اور کھلے لفظوں میں مسلم لیگ ن کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔