میں شاہراہ دستور سے گزر رہا تھا کہ مجھے ہائی کورٹ کے مرکزی دروازے پر ڈیڑھ درجن افراد کا ایک ہجوم بظاہر ایک دوسرے سے الجھتا ہوا نظر آیا۔ گاڑی پارک کی اور جلدی سے وہاں پہنچا تو دیکھا کہ عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کو موبائل کیمروں نے گھیر رکھا تھا اور وہ درمیان میں سینے پر ’دو درجن تمغے‘ سجائے محو گفتگو تھے۔
اس سے ملتے جلتے مناظر ماضی میں بھی ہمیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے باہر نظر آتے تھے جب نواز شریف اور مریم نواز کی پیشی ہوتی تھی یا ان سے متعلق کوئی کیس زیرسماعت ہوتا تھا۔ فرق صرف اتنا ہوتا تھا کہ وہاں موبائل کیمروں کی جگہ ٹی وی کیمرے ہوتے تھے جبکہ ’کوٹ پر چپکائے‘ گئے مائیک کی جگہ چینلز کے لوگو والے مائیک ہوتے تھے۔
مزید پڑھیں
-
’ایف آئی اے کا صحافیوں کو نوٹسز بھیجنا بدترین سنسرشپ ہے‘Node ID: 564151
-
’یوٹیوب کریئیٹ‘ سے ویڈیو ایڈٹ کرنا کتنا آسان؟Node ID: 798536
اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر جب لطیف کھوسہ موبائل کیمرے والوں سے گفتگو کر رہے تھے تو اس وقت وہاں موجود ایک ٹی وی چینل کا اکلوتا کیمرہ ایک طرف کھڑا تھا جس کے بارے میں خیال گزرا کہ بے چارہ یقیناً بوریت محسوس کر رہا ہوگا۔
لطیف کھوسہ کی ابتدائی گفتگو کے بعد ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمات سے لے کر عمران خان کی رہائی تک، نواز شریف کی واپسی سے لے کر انتخابات کے انعقاد تک، مولانا فضل الرحمان کے حالیہ بیانات سے لے کر فلسطین اور اسرائیل کی صورت حال پر تمام امور کا احاطہ کیا جا رہا تھا۔
یوٹیوبرز انھیں سوالات کی صورت میں فل ٹاس گیندیں کروا رہے تھے اور لطیف کھوسہ جواب میں منجھے ہوئے بلے باز کی طرح سٹروکس کھیل رہے تھے۔
کچھ ہی دیر میں سابق خاتون اول بشریٰ بی بی ہائی کورٹ پہنچیں تو ان کے سکیورٹی سٹاف نے یوٹیوبرز کو لائن اپ کیا اور آگاہ کر دیا کہ قریب نہیں آنا۔
انھوں نے ان ہدایات کو من و عن تسلیم کیا اور بشریٰ بی بی کے ہائی کورٹ میں داخلے کو آرام و سکون سے عکس بند کر لیا۔ ان کی جگہ ٹی وی چینلز کے کیمرہ مین ہوتے تو کسی کی ایک نہ سنتے اور اپنی مرضی کا شاٹ بنانے کے لیے ہر حد سے گزر جاتے۔

یوٹیوبرز یا سوشل میڈیا چینلز کیسے اہم ہوئے؟
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا پر عمران خان کی کوریج پر غیر اعلانیہ پابندی کے بعد ان یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا صحافیوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ ہائی کورٹ ہو یا کوئی بھی سیاسی سرگرمی یہ وہاں ضرور موجود ہوتے ہیں۔ ویڈیو بناتے اور اپ لوڈ کرتے ہیں اور اس کے ویوز کے ذریعے کمائی کرتے ہیں۔
یوٹیوبر نادر بلوچ بنیادی طور پر صحافی ہیں لیکن سوشل میڈیا پر یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج چلاتے ہیں۔ اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’الیکٹرانک میڈیا پر عمران خان کا نام نشر کرنے پر پابندی ہے اس لیے جب ہم ان سے متعلق خبر اپنے سوشل میڈیا چینلز پر چلاتے ہیں لوگ اسے دیکھتے ہیں۔ ہماری ویڈیوز لوکھوں کی تعداد میں دیکھی جاتی ہیں۔‘
اس حوالے عمران خان کے وکیل شعیب شاہین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’اس وقت پاکستان میں سوشل میڈیا چینلز ہی سچ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر پابندیاں ہیں اس لیے یا تو وہ سچ بول ہی نہیں رہے یا پھر اس کو ملفوف انداز میں بیان کر رہے ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا چینلز کو پذیرائی مل رہی ہے۔‘
صرف تحریک انصاف کی ہی کوریج کیوں؟
یوٹیوبرز کا کہنا ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا پر لوگ عمران خان اور تحریک انصاف سے جڑے معاملات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم عمران خان کے مقدمات کے لیے ہائی کورٹ آتے ہیں۔ ان کے وکلا سے بات کرتے ہیں اور ان کی ویڈیوز چلاتے ہیں۔
یوٹیوبر نادر بلوچ کے مطابق ’یہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا معاملہ ہے اسی وجہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم یوٹیوبرز صرف تحریک انصاف کو کور کرتے ہیں۔ ہم اگر کوئی ایسی ویڈیو اپ لوڈ کریں جو کسی دوسری جماعت سے متعلق ہو تو اس کے ویوز چند ہزار ہوتے ہیں جبکہ عمران خان سے متعلق ویڈیوز کے ویوز لاکھوں میں جاتے ہیں۔‘
سوشل میڈیا صحافی ریاض چمکنی کا تعلق قبائلی علاقے سے ہے اور انھوں نے حال ہی میں ماس کمیونیکیش میں بی ایس کیا ہے۔ انھوں نے فیس بک پیج اور یوٹیوب چینل بنا رکھا ہے۔ جس پر وہ عدالتی اور سیاسی ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ فیس بک پر ان کے آٹھ لاکھ فالوورز ہیں جس وجہ سے ان کی توجہ فیس بک پر ہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا کام کسی ایجنڈے کی ترویج نہیں ہے تاہم مقامی میڈیا میں تحریک انصاف کے بیانیے کو اہمیت نہیں دی جا رہی۔ جب ہم وہ دکھاتے ہیں تو لوگ ہمیں پسند کرتے ہیں۔ اسلام آباد کی عدالتوں میں چونکہ ان دنوں زیادہ تر مقدمات ہیں ہی عمران خان اور ان کی جماعت کے رہنماؤں کے بارے میں تو لوگ ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اگر ہم کسی اور جماعت کی سیاسی سرگرمی کی ویڈیو اپ لوڈ کر بھی دیں تو اس کے ویوز بہت کم ہوتے ہیں۔‘
کون کون سے رہنماؤں کی ویڈیوز پر ویوز زیادہ آتے ہیں؟
اس حوالے سے یوٹیوبرز کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے کم و بیش تمام رہنماؤں کو ہی لوگ دیکھتے تھے لیکن نو مئی کے بعد سے اب صرف وکلا ہی بات کرتے ہیں تو ان وکلا میں سب سے زیادہ شیر افضل ایڈووکیٹ کو دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح لطیف کھوسہ، نعیم پنجوتھا اور شعیب شاہین کو بھی دیکھا جاتا ہے۔
یوٹیوبر نادر بلوچ کے مطابق ’رانا ثناءاللہ، عطا تارڑ اور کچھ دیگر لیگی رہنماؤں کی ویڈیوز اس لیے دیکھی جاتی ہیں کہ لوگ ان کے عمران خان سے متعلق بیانات کو دیکھ کر اپنا جوابی بیانیہ ترتیب دیتے ہیں۔‘
روایتی میڈیا یا سوشل میڈیا؟
اس حوالے سے یوٹیوبرز کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر بہت سی پابندیاں ہیں۔ اس لیے ان کی ترجیح سوشل میڈیا ہے جہاں وہ آزادانہ طریقے سے کام کر سکتے ہیں جبکہ روایتی میڈیا کی تنخواہ سے کئی گنا زیادہ پیسے بھی کما سکتے ہیں۔
