’خود کو انگریز بدو سمجھتا ہوں‘ خلیجی لہجے میں عربی بولنے والا برطانوی شہری
برطانوی شہری کا کہنا ہے’ اسے سعودی عرب کی تاریخ دریافت کرنے کا جنون ہے‘(فوٹو: عاجل)
برطانوی شہری نے خلیجی لب و لہجے میں روانی کے ساتھ عربی بولنا سیکھ لی اور بدوؤں کا طرز زندگی اور ان کے رسم و رواج اختیارکرلیے۔
العربیہ چینل کے مطابق برطانوی شہری جان نے بتایا زندگی کا بڑا حصہ سعودی عرب اور امارات کے درمیان گزارا۔ والد کے ساتھ امارات میں کافی وقت گزارا جہاں وہ ایک کمپنی کے ڈائریکٹر تھے‘۔
برطانوی شہری کا کہنا تھا’ خلیجی ممالک میں قیام کے دوران خلیجی زبان اور ان کے رہنے رہن سہن جاننے کا موقع ملا۔ مجھے اہل خلیج کے شوق اچھے لگے۔ ان کی طرح گھڑ سواری پسند ہے۔ اب میں خود کو انگریز بدو سمجھتا ہوں‘۔
برطانوی شہری نے کہا کہ ’خلیج کی زبان اور یہاں کے طرز معاشرت کا اس قدر عدی ہوچکا ہوں کہ انگلینڈ میں خود کو پردیسی محسوس کرتا ہوں‘۔
ان کا کہنا تھا ’بچپن سے عربی زبان سیکھنے کا شوق تھا۔ پہلے برطانوی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور سعودی عرب میں ملازمت ملی۔ تمام کام عربوں سے پڑتے تھے۔ سعودیوں سے خیر مقدمی کلمات سیکھ لیے‘۔
برطانوی شہری نے بتایا کہ’ کئی سال تک خلیج کے ملکو ں میں بدوؤں کے لہجے میں عربی سیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ برطانیہ واپس گیا تو وہاں میرے عرب دوست جو سکالر شپ پر برطانیہ میں زیر تعلیم تھے مجھ سے مل کر خوش ہوئے۔ میں نے ان کے ساتھ زندگی کے خوبصورت دن گزارے۔
بچپن سے سعودی عرب اور اس کے ورثے سے مجھے پیار تھا۔ انگلینڈ میں زیر تعلیم سعودی طلبہ سے رابطہ میں رہا اور پھر میں انہی میں سے ایک ہوگیا۔ ہمارے درمیان پیار و محبت کا رشتہ بن گیا۔
برطانوی شہری کا کہنا ہے’ اسے سعودی عرب کی تاریخ دریافت کرنے کا جنون ہے‘۔
’ریاض کے قریب الدرعیہ کا طریف اور البجھیری محلہ بہت اچھا لگا۔ القصیم، الدوادمی، عفیف، الھویہ اور مکہ مکرمہ بھی جا چکا ہوں۔ حائل، العلا اور جبل شمر جانے کی خواہش ہے‘۔
برطانوی شہری نے مقامی کھانوں کے حوالے سے بتایا’ انہیں کبسہ، مدینہ، مرقوق، الجریش وغیرہ سعودی پکوان اور سعوی قہوہ پسند ہے۔