ہند سے آئے ہوئے رحجان ساز مہمان شاعر راہی فدائی کے اعزاز میں بھوپال این آر آئیزکی محفلِ مشاعرہ
* * * * ادب ڈیسک۔ الخبر* * *
آج سوشل میڈیا نے فروغ ِ ادب کے نئے ذرائع متعارف کرادیئے ہیں اِ س کے باوجود مشاعروں کے انعقاد میں روایتی جوش اور جذبہ قائم ہے۔ مشاعرے تہذیب کی علامت ہیں۔ بھوپال این آر آئی آئیز ویلفیئر فور م کے زیرِ اہتمام ہندوستان سے آئے ہوئے رحجان ساز شاعر راہی فدائی کے اعزاز میں ـ’’ بھوپال منزل ‘‘ الخبر میں ایک شاندار مشاعرے کا اہتمام کیا۔ بین الاقوامی شہر ت کے حامل چار شعری مجموعہ ہائے کلام کے خالق سہیل ثاقب نے صدارت کی۔
مہمان ِ خصوصی کی نشست پر راہی فدائی جلوہ افروز تھے۔ مہمانِ اعزازی کی نشست پر کہنہ مشق شاعر ،خاکہ نگار اور اوورسیز پاکستانی رائٹرز فورم کے روحِ رواں اقبال احمد قمر موجود تھے۔ میزبانِ خصوصی کی نشست پر بھوپال این آر آئیز ویلفیئر فورم کے صدر شہریار خان محمدمتمکن تھے۔ نظامت کے فرائض معروف شاعر شیراز مہدی ضیاء نے ادا کئے۔نشست دوحصو ں پر مشتمل تھی ، پہلے حصے میں راہی فدائی کے فن پر روشنی ڈالی گئی جبکہ دوسرے حصے میں یادگار محفلِ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ محفل کا آغاز تلاوتِ کلام ِ پاک سے کیا گیا جس کی سعادت شاعر فکا ہ نگار و افسانہ نگار محمد ایوب صابر نے حاصل کی۔ شیراز مہدی ضیاء نے راہی فدائی کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اصلی نام ظہیر احمد باقوی ہے۔ انہوں نے میسور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا، ایس وی یونیورسٹی تروپتی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، مدراس یونیورسٹی سے ادیب فاضل کیا، ادیب کامل جامعہ اردو علی گڑھ سے کیا، افضل العلماء ،مدراس یونیورسٹی سے کیا۔ تقریباً 30کے قریب شعری اور تحقیقی کتب تخلیق کر چکے ہیں۔ راہی فدائی کے فن پر پی ایچ ڈی کے2 مقالے بھی لکھے جا چکے ہیں۔ محمد ایوب صابرنے راہی فدائی کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ راہی فدائی کی شاعری میں تنوع ہے ،اِن کے لہجے میں ایسی چاشنی ہے جو موجودہ دور کے شعراء میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔ انہوں نے شعری سفر میں آسان راستوں کا انتخاب نہیں کیا بلکہ اپنے سفر میں پہلے اپنی پسند اور رحجان کا راستہ چُنا ،اس کے بعد سفر کا آغاز کیا اِس لئے زادِ سفر میں فکری اثاثہ اور دل میں مسلسل محنت کی لگن رکھی ہے۔ راہی فدائی کو اردو ،عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل ہے ۔ اِن کی شاعری میں تینوں زبانوں کی حلاوت نظر آتی ہے۔ انہوں نے محض قافیہ پیمائی کی خاطر غزل تخلیق نہیں کی بلکہ ایک فکر کو سامنے لانے کے لئے قلم کا سہارا لیا۔ بلاشبہ ڈاکٹرراہی فدائی کا شمار دورِ حاضر کے اساتذہ میں کیا جا سکتا ہے۔
اقبال احمد قمر نے کہا کہ اِس شعری نشست میں منطقہ شرقیہ کے اہم شعراء نے شرکت کی اور ڈاکٹر راہی فدائی کے ساتھ شعری نشست کا موقع نصیب ہوا ۔ منطقہ شرقیہ کے کئی اہم شعراء مصروفیات کی وجہ سے تشریف نہیں لا سکے۔ راہی فدائی نے مشاعرے کے اہتمام کے لئے تمام شعرا ء اور میز بان شہریا ر محمد خان کا شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نے منطقہ شرقیہ میں بہترین مشاعرے کے انعقاد پر خوشی کا اظہا ر کیا ، انہوں نے کہا کہ یہاں پر اردو زبان و ادب کے حوالے سے متاثر کن کام ہو رہا ہے۔ معروف شاعر سہیل ثاقب نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں سب سے پہلے شہریار محمد خان کاشکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس شاندار محفل کا اہتمام کیا۔ میںراہی فدائی کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
منطقہ شرقیہ کے شعراء کو آپ نے ملاقات کا وقت دیا، یہ ہمارے لئے ایک اعزاز ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ آئندہ جب بھی آئیںگے تو ہمیں ایک اور اہم نشست میں آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہو گا۔ دوسرے دور میں شعراء نے اپنے کلام سے محفل میں سماں بدل دیا۔یو ں محسوس ہو رہا تھا کہ وقت تھم گیا ہے اور ساعتیں کلام کر رہی ہیں۔ مکرر ارشاد کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری تھا اور ایک عام سی شام یادگار لمحات میں ڈھل رہی تھی۔ محفل کے اختتام پر راہی فدائی نے سہیل ثاقب اور اقبال احمد قمر کو اپنی شعری تخلیقات پیش کیں۔ اعزاز احمد، مسعود جمال، غزالہ کامرانی، سید منصور شاہ، سلیم حسرت ، شیرازمہدی ضیا ء، سرفراز ضیاء، خالد صدیقی،محمد ایوب صابر، افضل خان، اقبال احمد قمر، راہی فدائی اور سہیل ثاقب نے اپنا کلام پیش کیا۔ میزبانِ خصوصی شہریار محمد خان نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا اورمحفل کے انعقاد میں ایوب صابر کی کاوش کو سراہا ۔ ساجد محمود، عارف خان، عبدالرشید خان، رفعت اقبال فاروقی اور مظفر احمد کی خصوصی شرکت نے محفل کی رونق کو دوبالا کر دیا۔
قارئین کی دلچسپی کے لئے شعرا ء کے کلام سے اقتباس پیش خدمت:
٭٭مسعود جمال:
دِکھلا کے اپنا پیار کیا ہے اُنہیں نہال
وہ یہ سمجھ رہے ہیں بڑے شبنمی ہیں ہم
کرتے رہے ہیں عشق ازل سے تجھے غزل
مانا سخنوری میں ابھی مبتدی ہیں ہم
٭٭سید منصور شاہ:
بستے ہی میرے دل کی یہ بستی اُجڑ گئی
اُن کی تجلیات ، ارے باپ کیا کروں
٭٭غزالہ کامرانی:
جب بھی کبھی تپش میں ملا سایۂ سحاب
آیا ترا خیال بڑی تیز دھوپ ہے
٭٭شیراز مہدی ضیاء:
سورج کے خواب دیکھ کے خوش ہو رہے ہیں لوگ
سورج نکل چکا ہے مگر سو رہے ہیں لوگ
زرخیز جو زمین تھی ویران رہ گئی
بنجر زمیں میں بیج بہت بو رہے ہیں لوگ
٭٭سرفراز حسین ضیاء:
یہ زندگی تو وقت کے لمحوں پہ ہے سوار
ہم بہتے ہوئے پانی پہ تنکے ہیں گھاس ہیں
شمس و قمر ،فلک یہ ہے اُس کی ہی دسترس
سارے نظام اُس کے کرم کے سپاس ہیں
٭٭خالد صدیقی:
روز یہ غم نئے مہمان بہت کرتا ہے
دل مرا مجھ کو پریشان بہت کرتا ہے
دیکھ کر جلوہ ترا چاندنی پھیکی سی لگے
چاند کو رُخ یہ پشیمان بہت کرتا ہے
٭٭محمد ایوب صابر:
مری اپنی خطا ٹھہری ، مری افتاد کے پیچھے
میں خود آیا قفس کو ڈھونڈتا صیاد کے پیچھے
سرِ محفل بیاں کرتا میں کیسے داستاں اپنی
ہزاروں راز ہیں پنہاں مری روداد کے پیچھے
٭٭افضل خان:
ہر شام سلگتے ہیں چراغو ں کی طرح ہم
ہر صبح بکھر جا تے ہیں خوابوں کی طرح ہم
ہیں گرد سے آلودہ پہ نایاب بہت ہیں
اک شیلف پہ رکھے ہیں کتابوں کی طرح ہم
٭٭اقبال احمد قمر:
افشا تُو اپنی ذات کر کچھ بات کر
کچھ تابشِ جذبات کر کچھ بات کر
شاید ترے لفظوں سے کوئی جی اُٹھے
اپنا سُخن خیرات کر کچھ بات کر
٭٭راہی فدائی:
جسم و جاں کے ایواں میں فکرو فن کا سناٹا
حرف حرف گویا ہے، خوش دہن کا سناٹا
آخرش ہمیں بھی کیا ،بے عمل بنادیں گے
عیب جو کی خاموشی، طعنہ زن کا سناٹا
رفتہ رفتہ خون ِ دل نیلگوں ہوا راہی
ناگ بن کے ڈستا ہے، حسنِ ظن کا سناٹا
٭٭سہیل ثاقب:
دشتِ ہجراں کی کسی رات سے کب گزرا ہے
یہ جنوں کرب کے لمحات سے کب گزرا ہے
ہرگھڑی خوف لگا رہتا ہے کھو جانے کا
تُو ابھی شہرِ طلسمات سے کب گزرا ہے