Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں نواز شریف کی آمد کی تیاریاں: ’ہر جگہ پانی ہی پانی‘

لاہور میں ایک جانب حالیہ بارشوں کے بعد موسم خوشگوار ہو گیا ہے اور موسم سرما کا آغاز ہونے کو ہے تو دوسری جانب سیاسی درجۂ حرارت بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے لاہور میں سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ مختلف شاہراہوں اور چوراہوں پر نواز شریف کی آمد کے حوالے سے پارٹی بینرز اور جھنڈے آویزاں کر دیے گئے ہیں جبکہ مینار پاکستان کے گراؤنڈ یا گریٹر اقبال پارک میں نواز شریف کے استقبال کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔
مینارِ پاکستان کے سامنے آزادی فلائی اوور پر چلتی گاڑیاں وقفے وقفے سے رکتی ہیں اور ان میں سوار لوگ مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں جاری سرگرمیوں پر اچٹتی سی نظر ڈالتے ہیں۔
موٹر سائیکل سوار فلائی اوور کے جنگلوں کے پاس جا کر ایک ہاتھ جنگلے پر اور ایک ہاتھ موٹر سائیکل پر رکھ کر انجان سی شکل بنا کر ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں ’بھائی یہ کیا ہو رہا ہے؟ کوئی جلسہ ہو رہا ہے کیا؟‘
مینار پاکستان گراؤنڈ میں جاری سرگرمیوں کے بارے میں لوگوں کی اس طرح کی گفتگو سے ایک طرف مزید سوالات کھڑے ہو رہے ہیں تو دوسری طرف سیاسی سرگرمیوں میں عوامی عدم دلچسپی بھی ظاہر ہو رہی ہے جو  مسلم لیگ (ن) کی کمزور کمپین کی طرف اشارہ کرتی ہے، تاہم پارٹی کی جانب سے مینار پاکستان گراؤنڈ میں ہر ممکن تیاری کی جا رہی ہے۔
پارٹی ورکرز سمیت مقامی قیادت اور استقبالیہ جلسے کے نگران رہنما گراؤنڈ میں موجود ہیں۔
نواز شریف کے استقبالیہ جلسے کے لیے مینار پاکستان گراؤنڈ کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں مختلف طریقوں سے تیاریاں جاری ہیں۔ اِن میں تین حصوں میں لوگ ہوں گے جبکہ ایک حصہ خالی ہوگا۔
آزادی چوک فلائی اوور سے مینار پاکستان کو دیکھنے پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تاریخی مینار موجود ہے اُس کے پچھلے حصے کا گراؤنڈ خالی رکھا گیا ہے جبکہ سامنے والے گراؤنڈ کو پارٹی نے جلسے کے لیے مختص کر دیا ہے۔ یہاں سے گراؤنڈ پانی کے تالاب کا منظر پیش کر رہا ہے جو حالیہ بارشوں کا نتیجہ ہے۔
کچھ پارٹی ورکرز اس حوالے سے پریشان نظر آ رہے ہیں جو ایک دوسرے کو کچھ یوں تسلی دے رہے ہیں۔ ’پانی ای پانی اے۔ جلسہ کتھے ہوئے گا؟‘ دوسرا ورکر انہیں تسلی دیتے ہوئے بتاتا ہے ’جلسہ تے ہوئے گا۔ مشیناں تے لگیاں نے۔ پانی کڈ رہے نے۔‘
آزادی چوک والے گیٹ سے مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں داخل ہوتے ہی پارٹی سرگرمیوں کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ لوگ معمول کے مطابق مینار پاکستان سیر کے لیے آ رہے ہیں، لیکن پارٹی ورکرز اپنی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
آزادی چوک کی جانب سے گراؤنڈ میں داخل ہوں تو کچھ ہی فاصلے پر دائیں جانب ایک کیمپ لگایا گیا ہے جہاں مزدور جلسے کے لیے لائٹیں لگانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس کیمپ میں بجلی کی تاریں اور دیگر سامان رکھا گیا ہے۔

جلسے کی تیاریوں میں مصروف مزدور تاروں کے جوڑ لگا کر بلب روشن کر رہے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

مزدور تاروں کے جوڑ لگا کر بلب روشن کر رہے ہیں اور جوڑ درست لگنے پر بلبوں کا ایک چوکھٹا تیار ہوجاتا ہے جسے ایک کھمبے کے ذریعے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اس کیمپ کے اندر کچھ مزدور آرام کر رہے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے حصے کا کام پورا کر لیا ہے۔
پیلے رنگ کی یہ لائٹیں اُس مقام تک لگائی گئی ہیں جہاں جلسہ گاہ کی حد ختم ہوجاتی ہے، لیکن پارٹی نے متوقع طور پر لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے کے پیش نظر گراؤنڈ کا ایک بڑا حصہ بھی جلسہ گاہ میں شامل کر لیا ہے تاکہ جلسے کے لیے جگہ مزید بڑھ جائے، تاہم اِس حصے کو شامل کرنا ظاہری طور پر درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ یہ وہ حصہ ہے جسے لوگوں کے داخلے کے لیے استعمال کیا جائے گا اور جلسہ گاہ میں اسے شامل کرنے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
اسی کیمپ کے ساتھ ہی گراؤنڈ کا ایک بڑا حصہ پانی کا تالاب بنا ہوا ہے جہاں سے مشینری کے ذریعے پانی نکالا جا رہا ہے۔ ایک شخص دستی مشین کے ذریعے پانی نکال رہا ہے جبکہ اس کے ساتھ والے گراؤنڈ میں کچھ دیگر ساتھی لوٹوں کی مدد سے نکاسی آب کا کام کر رہے ہیں۔ 
 

جلسے سے ایک دن قبل یا جلسے کے دن بارش ہونے کی صورت میں مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

پانچ کنٹینرز میں پانی بھر بھر کر باہر نکالا جا رہا ہے لیکن فی الوقت ایسا کوئی انتظام نظر نہیں آ رہا جس میں ٹینکرز کے استعمال کو ترک کیا جاسکے۔ جلسے سے ایک دن قبل یا جلسے کے دن بارش ہونے کی صورت میں مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس کیمپ کے بالکل ہی بائیں جانب ایک دوسرا کیمپ بھی لگا ہے لیکن وہاں سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں جب  کہ قریب ہی ایک عمارت میں مقامی قیادت کی میٹیگز ہو  رہی ہیں۔
مقامی رہنما اور پارٹی ورکرز یہاں جمع ہوتے ہیں اور نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس وقت مختلف رہنما یہاں موجود ہیں جن میں سابق رُکن صوبائی اسمبلی بلال یٰسین سر فہرست ہیں جو نواز شریف کے میزبان کے طور پر وہاں ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ سابق مشیر وزیراعظم شبیر احمد عثمانی اور سابق ایم پی اے اختر حسین بادشاہ بھی یہاں موجود ہیں۔
کچھ روز قبل یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) انہی کیمپس میں پارٹی کے تمام فیصلے کرے گی اور انتظامات سے متعلق تمام میٹنگز بھی انہی کیمپس میں ہوں گی، تاہم سابق ایم پی اے بلال یٰسین نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اُردو نیوز کو بتایا کہ فیصلے اب بھی ماڈل ٹاؤن میں کیے جاتے ہیں۔ ’پارٹی کی جانب سے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ہم نے یہاں کیمپس لگائے ہیں اور ہماری میٹنگز بھی یہیں ہوتی ہیں لیکن ان کا تعلق انتظامات سے ہوتا ہے۔ ہم بھی یہاں اِسی لیے موجود ہیں کہ ہم اس علاقے کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ پارٹی کے دیگر فیصلے آج بھی ماڈل ٹاؤن میں ہوتے ہیں۔‘

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مینار پاکستان گراؤنڈ یا گریٹر اقبال پارک نواز شریف کے استقبال کے لیے تیار ہے (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے مزید کہا کہ استقبالیہ جلسے کی تیاریاں جاری ہیں اور جلسہ گاہ اور انتظامات کے معاملات کو بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ’ہماری لائٹیں لگ گئی ہیں آج ساؤنڈ سسٹم لگا دیا جائے گا اور نکاسی آب کا کام بھی کل تک مکمل ہو جائے گا.‘
سابق مشیر وزیر اعظم شبیر احمد عثمانی نے بھی اس تاثر کو رد کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم ابھی سابق وزیراعظم شہباز شریف سے میٹنگ کر کے آئے ہیں۔ ہماری ملاقاتیں جاری ہیں لیکن ہم یہاں انتظامات کو بھی دیکھ رہے ہیں۔‘
پارٹی ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’آج صبح سات بجے مینار پاکستان میں پارٹی کی مرکزی قیادت آنے والی تھی، تاہم ان کی آمد تاخیر کا شکار ہو گئی۔ ذرائع کے بقول ’حمزہ شہباز شریف، مریم اورنگزیب اور خواجہ عمران نذیر کے علاوہ دیگر رہنما تیاریوں کا جائزہ لینے آرہے تھے، لیکن ان کو آنے میں تاخیر ہو گئی ہے۔‘
ذرائع نے مزید بتایا کہ ’آج سے اگلے تین روز تک مرکزی قیادت ہر روز جلسہ گاہ کا دورہ کرے گی اور تیاریوں کا جائزہ لے گی۔‘
مینار پاکستان کے بالکل ساتھ ہی سٹیج لگایا گیا ہے جہاں کنٹینرز رکھے گئے ہیں۔ چھ کنٹینرز کے اوپر دو مزید کنٹینرز رکھے گئے ہیں جو سٹیج کے لیے سہارے کا کام کر رہے ہیں۔ مینار کا چبوترا ان دو کنٹینرز کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ ان کنٹینرز کے سامنے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر کئی میٹرز تک جگہ خالی رکھی گئی ہے اور اس کے بعد باڑ لگائی گئی ہے تاکہ کوئی اندر داخل نہ ہوسکے۔
اس باڑ کے سامنے کنٹینرز کے قریب بھی کچھ پولز لگائے گئے ہیں جن کا مقصد بظاہر مہمانوں کو راستے کی نشاندہی کرنا ہے۔
سٹیج کے سامنے گراؤنڈ میں بھی پانی جمع ہے لیکن کنٹینرز کے ذریعے انہیں خالی کروایا جا رہا ہے۔ سٹیج کے عقبی حصے کے گراؤنڈ کو خالی رکھا گیا ہے۔ بظاہر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ اس جگہ کو کھانے کے انتظامات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مینار پاکستان گراؤنڈ یا گریٹر اقبال پارک نواز شریف کے استقبال کے لیے تیار ہے اور کارکنان و پارٹی ورکرز سمیت مقامی رہنما بھی دیر رات تک گراؤنڈ میں موجود ہوتے ہیں۔

سابق رُکن صوبائی اسمبلی بلال یٰسین وہاں ہمہ وقت موجود رہتے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

پارٹی ورکرز کا کہنا تھا کہ وہ ہر روز اور ہر رات یہاں موجود ہوتے ہیں۔ ایک ورکر شفیق اشرف کا کہنا تھا کہ ’ہم تو پاکستان اور آسٹریلیا کا میچ بھی یہیں دیکھیں گے۔‘
گراؤنڈ کا ایک بڑا حصہ جلسہ گاہ کے لیے مختص ہے لیکن سابق رُکن صوبائی اسمبلی اختر حسین بادشاہ کے مطابق ’یہاں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ ہوں گے اور ہمارے اندازوں کے مطابق، نواز شریف کے استقبال کے لیے یہاں دس لاکھ لوگ آئیں گے۔‘
سابق مشیر وزیراعظم شبیر احمد عثمانی کے مطابق گراؤنڈ کا ایریا جلسے کے لیے نہایت کم ہے۔ یہاں تو چند لاکھ لوگ ہی آسکیں گے لیکن ہم اپنی پارٹی کے ورکرز کو جانتے ہیں۔ صرف لاہور یا پنجاب سے ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ آئیں گے اور گراؤنڈ کے علاوہ سامنے فلائی اوور اور ارد گرد کے سارے علاقوں میں بھی لوگوں کا ہجوم ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی ہر طرح سے تیار ہے لیکن ’پھر بھی اِس بار نواز شریف کا استقبال تاریخی ہوگا جسے کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا۔‘

شیئر: