Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جرمن سیاح پاکستان میں،’غلط فہمیاں دور کرنے کے مشن پر‘

0 seconds of 4 minutes, 15 secondsVolume 90%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
04:15
04:15
 
سرحدوں اور مختلف ثقافتوں کے باعث منقسم دنیا میں لوگوں کو جوڑنے کی بات کرنا آسان نہیں ہے۔ ان سرحدوں نے اگر انسانوں کو تقسیم کیا ہے تو بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو زندہ جذبوں کے ساتھ ان سرحدوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والے مہم جو مارسل لاڈے کا پاکستان آنا ان کے اسی سفر کا نکتۂ آغاز ہے جو صرف دقیانوسی تصورات کی نفی ہی نہیں کرتا بلکہ انہیں زمین بوس کر دیتا ہے۔
 گذشتہ چھ ماہ سے مارسل لاڈے پاکستان کی سیاحت کر رہے ہیں۔ ان کے اس سفر کی سب سے منفرد بات یہ ہے کہ وہ کسی پاکستانی شہری کی طرح ہونڈا 125 پر پاکستان کی گلیوں اور سڑکوں پر بے خوف و خطر گھوم رہے ہیں۔  
مارسل نے پاکستان کا سفر کرنے کا منصوبہ اس وقت بنایا جب سعودی عرب کی سیاحت کے دوران ان کی ملاقات کچھ پاکستانیوں سے ہوئی۔ وہ پاکستانیوں کی گرم جوشی اور دوستی کو محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے۔ ان کی شاندار مہمان نوازی نے مارسل کو پاکستان کا سفر کرنے کی جانب متوجہ کیا اور یوں ان کے پاکستان آنے کی راہ ہموار ہوئی۔  
 پاکستان پہنچنے پر مارسل نے ایک غیر روایتی فیصلہ کیا۔ انہوں نے پاکستان کی سیاحت کے لیے ہونڈا 125 کا انتخاب کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے اس فیصلے نے مجھے پاکستانیوں کی روزمرہ زندگی کو قریب سے محسوس کرنے اور ایک منفرد نقطۂ نظر سے دیکھنے کی جانب اُبھارا۔‘ 
پاکستان میں اپنے چھ ماہ کے قیام کے دوران مارسل نے پاکستان کے تقریباً 60 شہروں کا سفر کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’شمالی علاقہ جات، ناران، کاغان، ہنزہ اور چترال میرے پسندیدہ ترین  مقامات ہیں۔‘  
بلند و بالا پہاڑی سلسلوں اور دلفریب مناظر نے ان کو ان علاقوں کا دیوانہ بنا دیا ہے۔
مارسل کی پاکستان کے بارے میں کھوج سیر و سیاحت تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ انہوں نے پاکستانی ثقافت میں گھلنے ملنے کی بھی پوری کوشش کی ہے۔  

 پاکستان پہنچنے پر مارسل لاڈلے نے سیاحت کے لیے ہونڈا 125  کا انتخاب کیا (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے مقامی طرز زندگی کو اپناتے ہوئے پاکستانی خاندانوں کی کہانیاں سنیں، رہن سہن دیکھا اور گھر میں بنے لذیذ  کھانے کھائے۔  
یہ پاکستانیوں کی مہمان نوازی ہی ہے کہ انہوں نے جہاں بھی سفر کیا وہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور پاکستانیوں کے دروازے ان کے لیے ہمیشہ کُھلے رہے۔  
مارسل کے مطابق ان کے سفر کی سب سے اچھی یادیں کراچی کی ہیں جہاں ایک مقامی خاندان نے انہیں  اپنے گھر مدعو کیا اور انہوں نے اس خاندان کے ساتھ کئی ہفتے گزارے۔
مارسل نے پاکستان میں موجود گرم جوشی اور خاندانی نظام پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ ’یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔‘ 
مارسل مغرب میں پاکستان کی پیش کی جا رہی تصویر اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے مشن پر ہیں اور وہ اس حوالے سے یوٹیوب پر کئی ویڈیوز بھی بنا چکے ہیں۔
ان کا یہ پختہ یقین ہے کہ ’پاکستان ایک پرامن ملک ہے جو مہمان نواز لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔‘ 
 مارسل نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مغرب میں بہت سے لوگ پاکستان کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتے، لیکن میں نے یہاں جس مہمان نوازی کا تجربہ کیا ہے وہ بے مثال ہے۔ لوگوں نے مجھے مفت کھانے پیش کیے، مجھے اپنے گھروں میں مدعو کیا اور میرے ساتھ اپنے خاندان کے رکن کی طرح پیش آئے۔ مغرب میں پاکستان کی جو تصویر پیش کی جاتی ہے وہ بالکل غلط ہے۔‘

سعودی عرب میں پاکستانیوں کی شاندار مہمان نوازی نے مارسل کو پاکستان کا سفر کرنے کی جانب متوجہ کیا (فوٹو: مارسل لاڈلے)

مارسل نے جرمنی اور پاکستان کے درمیان سماجی روابط میں بھی فرق محسوس کیا۔ ان کا وطن اگرچہ زیادہ محفوظ ہے، لیکن پاکستان نے انہیں اپنائیت کا وہ احساس فراہم کیا جس کا انہوں نے جرمنی میں کبھی تجربہ نہیں کیا تھا۔ 
مارسل کے پسندیدہ پاکستانی تجربات میں سے ایک چائے پینا بھی تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی چائے مجھے اتنی پسند آئی کہ اب میں اسے چھوڑ نہیں سکتا۔‘ اور تو اور انہوں نے پاکستانی چائے بنانا بھی سیکھ لی ہے۔
مارسل نے اُردو جملے سیکھ کر پاکستانیوں سے جڑنے کی کوشش کی ہے۔ اردو بولنے کی ان کی ان کوششوں کی وجہ سے نہ صرف انہیں مقامی لوگوں کی جانب سے بہت زیادہ پیار ملا بلکہ ان کی یادوں میں کچھ مزید خوشگوار لمحے شامل ہو گئے اور ان کے لیے مقامی لوگوں کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنا آسان ہو گیا۔ 
مارسل کی آنکھوں میں پاکستان امن، محبت اور اتحاد کے چراغ کے طور پر روشن ہے۔ 

شیئر: