Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب خضدار میں مینگل قبیلے کا تنازع مسلح جنگ میں تبدیل ہوگیا

لیویز کے مطابق دونوں جانب سے راکٹ اور مارٹر گولے بھی داغے جارہے ہیں (فائل فوٹو: کیپٹن جمیل احمد بلوچ ٹوئٹر)
بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے وڈھ میں سابق وزیراعلٰی سردار اختر مینگل اور ان کے سیاسی و قبائلی مخالف شفیق مینگل کے درمیان جاری دیرینہ تنازع نے مسلح جنگ کی شکل اختیار کرلی ہے۔
تین دنوں سے فریقین کے درمیان جاری جھڑپوں میں اب تک سات افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ فائرنگ اور گولہ باری کے باعث کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ٹریفک کی روانی متاثر ہے جبکہ ہزاروں شہری گھروں تک محصور ہو چکے ہیں۔
 سردار اختر مینگل اور سابق نگراں وزیراعلٰی میر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کے درمیان تنازع گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
تاہم گذشتہ کئی ہفتوں سے دونوں کے حامی مسلح قبائل وڈھ اور اطراف کے علاقوں میں ایک دوسرے کے خلاف مورچے زن ہیں۔ 
دو روز قبل مسلح تصادم شروع ہوا اور جمعہ کو تیسرے روز بھی دونوں اطراف سے چھوٹے اور بھاری ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
لیویز کنٹرول وڈھ کے مطابق دونوں جانب سے راکٹ اور مارٹر گولے بھی داغے جارہے ہیں جن میں ایک مارٹر گولہ وڈھ بازار میں سردار اختر مینگل کی رہائش گاہ مینگل کوٹ کی عقبی جانب گرا جس میں ان کے تین حامی زخمی ہوگئے۔ 
لیویز کے مطابق تین دنوں میں اب تک سات افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر سردار اختر مینگل کے حامی ہیں دوسری جانب کیا نقصانات ہوئے ہیں ان کا پتا نہیں چل سکا ہے۔
لیویز کنٹرول کے مطابق شدید فائرنگ کی وجہ سے کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوئی ہے۔ جمعہ کی صبح سے شام تک تین متبہ کئی گھنٹوں تک شاہراہ بند رہی۔
پولیس اور لیویز نے حفاظت کے پیش نظر گاڑیوں کو چار مختلف مقامات پر روکے رکھا۔ اس صورت حال سے خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں مسافر بھی متاثر ہیں جو شدید گرمی میں کھلی سڑک پر انتظار کرنے پر مجبور ہیں۔
ایس ایس پی خضدار فہد کھوسہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ وڈھ بازار کے قریب فائرنگ کا سلسلہ جمعہ کی شام کو رُک گیا جس کے بعد ٹریفک بحال کردی گئی ہے۔ 
تاہم لیویز کا کہنا ہے کہ وڈھ بازار سے تقریباً 10 کلومیٹر دور پہاڑی علاقے میں اب تک دونوں گروہوں کے مورچہ زن مسلح افراد میں تصادم جاری ہے۔

بلوچستان حکومت نے وڈھ میں کشیدہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین سے تحمل کی اپیل کی ہے (فائل فوٹو: ڈی جی پی آر)

شدید فائرنگ کی وجہ سے وڈھ اور قریبی علاقوں کے مکین خوف و ہراس کا شکار ہیں اور وہ گھروں میں محصور ہوگئے ہیں۔ 
وڈھ بازار، سکول اور سرکاری دفاتر بھی بند ہیں۔گذشتہ روز ایک مارٹر گولہ گورنمنٹ بوائز انٹر کالج میں گرا جس سے عمارت کو نقصان پہنچا۔
ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی خضدار، ایف سی کمانڈنٹ اور دیگر حکام پولیس، لیویز اور ایف سی کی بھری نفری کے ہمراہ وڈھ میں موجود ہیں، تاہم وہ تصادم کو رکوانے میں ناکام ہیں۔
انتظامیہ کی ناکامی کے بعد بلوچ قبائلی رہنما سابق وزیراعلٰی نواب اسلم رئیسانی تصادم رکوانے اور مصالحت کے لیے وڈھ پہنچ گئے ہیں۔
ایس ایس پی خضدار کے مطابق نواب اسلم رئیسانی نے وڈھ میں سردار اختر مینگل کے بھیتجے سردار اسد مینگل سے ملاقات کی ہے جس کے بعد وہ دوسرے فریق کے پاس بھی پہنچے ہیں اور فریقین پر جنگ بندی کے لیے زور دیا ہے۔
نواب اسلم رئیسانی نے دونوں فریقین سے صبروتحمل کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انہیں اختیار دیں تاکہ وہ مذاکرات کے ذریعے تنازع کا حل نکالیں۔
؎سابق وزیراعلٰی نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی تک وڈھ میں موجود رہیں گے تاکہ کوئی خون خرابہ نہ ہو۔

نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ ’وہ جنگ بندی تک وڈھ میں موجود رہیں گے تاکہ کوئی خون خرابہ نہ ہو‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

وزیراعلٰی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو سمیت بلوچستان کے سیاسی و قبائلی عمائدین نے وڈھ میں کشیدہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین سے کہا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔
دوسری جانب بلوچستان ہائی کورٹ میں وڈھ کی صورت حال پر آئینی درخواست کی سماعت ہوئی۔
درخواست گزار امین مگسی نے عدالت کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے و مقامی انتظامیہ وڈھ اور کوئٹہ کراچی آر سی ڈی شاہراہ پر امن و امان برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ 
وڈھ کے مکینوں اور کوئٹہ کراچی رُوٹ پر سفر کرنے والے مسافروں کو شرپسندوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ شاہراہ کئی گھنٹے بند رہنے کی وجہ سے شیر خوار بچے خواتین، بزرگ شہری اور مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
عدالت نے متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کرکے رپورٹ طلب کرلی ہے۔
لڑائی کافی پُرانی چلی آرہی ہے
خیال رہے کہ وڈھ میں مینگل قبیلے کے دو خاندانوں کے درمیان رسہ کشی آج سے نہیں بلکہ اختر مینگل کے والد سردار عطا اللہ مینگل اور شفیق مینگل کے والد نصیر مینگل کے دور سے چلی آرہی ہے۔

 لیویز کا کہنا ہے کہ وڈھ بازار سے دور پہاڑی علاقے میں دونوں گروہوں کے مورچہ زن مسلح افراد میں تصادم جاری ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

مقامی صحافیوں کے مطابق نئی نسل نے اس کشیدگی کو کم کرنے کے بجائے اسے مزید گھمبیر کردیا ہے۔
بلوچستان کے سیاسی و قبائلی معاملات پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ ’گذشتہ دس پندرہ برسوں کے دوران کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔‘ 
’فریقین گذشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی میدان میں بھی ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف انتخابات بھی لڑے۔ اس لیے جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں، تناؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی سیاسی نہیں بلکہ قبائلی جنگ ہے۔ دونوں نے اس کو اپنی غیرت کا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔ ‘
’جو لوگ فریقین میں سے کسی کے ساتھ ہیں، وہ تو اس لڑائی کا حصہ ہیں لیکن اس صورت حال سے وڈھ اور خضدار کے لوگ ہی نہیں بلکہ اس علاقے سے گزرنے والی قومی شاہراہ پر سفر کرنے والے مسافر بھی متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ آئے روز کبھی ایک گروپ بازار یا سڑک بند کردیتا ہے کبھی دوسرا۔‘
اختر مینگل اور شفیق بلوچ کون ہیں؟
سردار اختر مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اور اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں۔ وہ خود اور ان کے والد سردار عطا اللہ مینگل بلوچستان کے وزیراعلٰی رہ چکے ہیں۔ 

پولیس، لیویز اور ایف سی کی بھاری نفری وڈھ میں موجود ہے، تاہم وہ تصادم کو رکوانے میں ناکام ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

شفیق مینگل تحصیل ناظم جبکہ ان کے والد میر نصیر مینگل بلوچستان کے نگراں وزیراعلٰی، سینیٹر اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔
سنہ 2005 میں سردار عطا اللہ مینگل کے گھر پر راکٹ حملے کا الزام شفیق مینگل پر عائد کیا گیا۔ اسی طرح 2011 جب کوئٹہ میں شفیق مینگل کے گھر پر حملہ ہوا تو اس کے مقدمے میں سردار عطا اللہ مینگل اور ان کے بیٹے جاوید مینگل کو بھی نامزد کیا گیا۔
شفیق مینگل کا ماضی متنازع رہا ہے۔ ان پر مسلح مذہبی تنظیموں سے تعلق، خودکش حملہ آوروں کو پناہ دینے جیسے سنگین الزامات لگتے رہے ہیں۔
سنہ 2014 میں خضدار کے علاقے توتک سے لاپتا افراد کی اجتماعی قبروں کی تحقیقات کے لیے قائم بلوچستان ہائی کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں شفیق مینگل کا ذکر کیا تھا۔ 2014 میں ان پر 8 لیویز اہلکاروں کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی اور کئی دیگر بلوچ تنظیمیں شفیق مینگل پر مسلح گروہ بنا کر جبری گمشدگیوں، قتل، اغوا اور بھتہ خوری میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔
ایسے ہی الزام شفیق مینگل اور ان کے حامی سردار اختر مینگل اور ان کے جلا وطن بھائی جاوید مینگل پر لگاتے ہیں۔ 

شیئر: