Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خوشی غم میں تبدیل‘، غزہ کے جوڑے کی شادی کا خواب چکناچور

سُوار صفی اور احمد کے خاندان الگ الگ کیمپوں میں مقیم ہیں اور وہ دونوں بمشکل ہی مل پاتے ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
فلسطین سے تعلق رکھنے والی دلہن سُوار صفی شادی کا جوڑا پہن کر اپنے شوہر احمد کے ساتھ زندگی گزارنے کی منتظر تھیں مگر اسرائیلی حملوں کے بعد وہ پناہ گزین کیمپ پہنچ گئیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سُوار صفی کا کہنا ہے کہ ’مجھے ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ یقین رکھو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، یہ ہماری قسمت ہے اور ہمیں اس کو تسلیم کرنا ہے۔‘
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں خوشی کے ان لمحات کو منانے کا موقع ہی نہیں ملا۔‘
30 سالہ سُوار صفی کا خاندان شمالی غزہ کے علاقے میں رہائش پذیر تھا مگر وہ اب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ خان یونس کے ایک کیمپ میں موجود ہیں۔
ان کے شوہر احمد صفی کا تعلق خان یونس سے ہے اور وہ بھی اسی علاقے میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک کیمپ میں موجود ہیں مگر یہ دونوں جنگ کی وجہ سے ایک دوسرے کو بمشکل ہی دیکھ پاتے ہیں۔
اس جوڑے کی شادی 19 اکتوبر کو ہونا تھی تاہم اس سے چند روز قبل ہی جنگ شروع ہو گئی۔
احمد صفی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی منگیتر کو فون کیا اور کہا کہ وہ شمال سے جنوبی علاقے کی طرف منتقل ہو جائیں۔
اسرائیل کی جانب سے بھی غزہ کے رہائشیوں کو شمال سے جنوب کی طرف منتقل ہونے کا کہا گیا تھا کیونکہ اس کو نسبتاً محفوظ قرار دیا گیا تھا تاہم وہاں بھی فضائی شیلنگ ہوئی۔
احمد کہتے ہیں کہ ’جب ہم نے ایک گاڑی کا انتظام کر کے ان کو وہاں سے یہاں لانے کی کوشش کی تو اسی وقت ہی فضائی شیلنگ شروع ہو گئی۔‘
ان کے مطابق ’ایک 30 سالہ شخص ہونے کے ناطے میں اپنی شادی کے دن کا انتظار کر رہا تھا جو 19 اکتوبر کو آنا تھا اور ہماری زندگی میں نئی خوشیاں لانے والا تھا مگر تباہی، ہلاکتوں اور غم نے زندگی بدل دی۔‘
تقریباً 23 لاکھ کی آبادی رکھنے والے پسماندہ علاقے غزہ میں شادی کو خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے تاہم وہاں لوگوں کی بڑی تعداد بے روزگار ہے اور شادی کرنے کے لیے مالی استطاعت نہیں رکھتی۔

شیئر: