Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن کمیشن انتخابات کے لیے تیار، غیریقینی کے بادل چَھٹ جائیں گے؟

ماجد نظامی کے بقول غیر یقینی کی کیفیت انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد بھی قائم ہے (فوٹو: اے ایف پی)
الیکشن کمیشن نے جمعرات کے روز سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات 11 فروری کو کروانے کے لیے تیار ہے جس کے بعد سیاسی منظرنامے پر انتخابات کے انعقاد سے متعلق چھائے ہوئے غیر یقینی کے گہرے بادل چھَٹنے کا امکان ہے۔ 
لیکن کیا سیاسی جماعتیں اور مبصرین الیکشن کمیشن کے اس اعلان پر یقین کر رہے ہیں اور کیا اس کے بعد ملک میں انتخابی گہما گہمی کا آغاز ہو جائے گا؟
فوری طور پر اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ جتنا الجھاؤ سیاسی معاملات میں ہے اور جتنی غیر یقینی گذشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان کے سیاسی نظام میں عود کر آئی ہے اس کا اتنا جلدی ختم ہونا آسان نہیں ہے۔ 
سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی کا خیال ہے کہ ’یہ غیر یقینی اس وقت تک قائم رہے گی جب تک انتخابی مرحلے کا حتمی آغاز زمینی سطح پر نہیں ہو جاتا۔‘
اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’اس کی سب سے بڑی وجہ گزشتہ سال سپریم کورٹ کی طرف سے رائے شماری کے حکم کے باوجود ملک کے دو اہم صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات نہ کروانا ہے۔‘
ماجد نظامی کے بقول غیر یقینی کی کیفیت انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد بھی قائم ہے اور یہ اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک تمام جماعتیں میدان میں اُتر کر عملی انتخابی مہم نہیں چلائیں گی۔
’آج بھی زمینی سطح پر یہ صورتحال ہے کہ کوئی جماعت یا امیدوار اپنی انتخابی مہم نہیں چلا رہا اور نہ ہی انتخابات کی کسی قسم کی تیاری نظر آتی ہے۔ اگر الیکشن کمیشن چاہتا ہے کہ یہ غیر یقینی کی صورتحال ختم ہو تو اسے مزید عملی اقدامات کرنے چاہییں۔‘
ماجد نظامی سے جب پوچھا گیا کہ وہ عملی اقدامات کیا ہیں تو ان کا جواب تھا کہ پاکستان کے عوام کو آج تک یہ نہیں پتہ کہ ان انتخابات کا انعقاد کون کرے گا؟ 
’جیسے کہ ہمیں اب تک یہ نہیں پتہ کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے عملہ کہاں سے آئے گا۔ اگر عدلیہ سے یہ عملہ نہیں لیا جاتا تو کیا یہ اداروں سے لیا جائے گا اور کن اداروں سے لیا جائے گا۔‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ ’اسی طرح ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان انتخابات میں فوج کا کیا کردار ہو گا۔ کیا وہ انتخابات کے لیے افرادی قوت فراہم کریں گے یا کیا وہ ان انتخابات کی سکیورٹی کے لیے کردار ادا کریں گے۔‘
ماجد نظامی کے مطابق جب تک یہ معاملات واضح نہیں ہوتے انتخابات کے متعلق غیر یقینی قائم رہے گی۔ 

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات 11 فروری کو کروانے کے لیے تیار ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ڈان ٹیلی ویژن کی میزبان نادیہ نقی سمجھتی ہیں کہ سپریم کورٹ کی طرف سے صدر سے انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم عدالت عظمٰی اس معاملے پر سنجیدہ ہے۔ 
تاہم ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کے رویے سے لگتا ہے کہ ’یا تو وہ ابھی انتخابات کے لیے تیار نہیں یا پھر ابھی انہیں اس کی اجازت نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت سابق حکومت کی پیروی کر رہے ہیں۔‘ 
نادیہ نقی کے مطابق ’انہی وجوہات کی بنا پر یہ لگتا ہے کہ ابھی انتخابات کے انعقاد کے لیے کئی اگر مگر موجود ہیں۔ یہ غیر یقینی اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی جب تک انتخابات کا حتمی شیڈول نہیں آ جاتا اور گلی محلّوں میں اس پر عملدرآمد شروع نہیں ہو جاتا۔‘ 
نادیہ نقی کا یہ بھی ماننا ہے کہ صدر مملکت اب بھی اس معاملے کے اہم کردار ثابت ہو سکتے ہیں اگر وہ انتخابات کی تاریخ پیچھے لانے پر زور دیں جبکہ حتمی تاریخ کے تعین کے بعد نگراں حکومت کی سرگرمیوں پر گہری نظر بھی حالات کی متقاضی ہے۔ 
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں دیکھنا ہو گا کہ نگراں حکومت انتخابی  شیڈول پر کیسے عمل کرتی ہے، ٹرانسفر پوسٹنگ کے احکامات اور دیگر عوامل کا کیا ہوتا ہے؟ ابھی بہت سے سوالات باقی ہیں۔‘ 

شیئر: