مشرق وسطیٰ کے بحران کی جڑ ’دوہرے اور تہرے‘ معیار ہیں: پاکستانی سفیر
مشرق وسطیٰ کے بحران کی جڑ ’دوہرے اور تہرے‘ معیار ہیں: پاکستانی سفیر
پیر 6 نومبر 2023 13:59
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم نے کہا ہے کہ بین الاقوامی آرڈر کے ’دوہرے اور تہرے‘ معیار نے اسرائیل کی حوصلہ افزائی کی ہے اور مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والے بحران کی یہی ’جڑ‘ ہے۔
عرب نیوز کے حالات حاضرہ کے شو ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں بات کرتے ہوئے منیر اکرم نے غزہ میں جنگ بندی کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے مرکز اور بین الاقوامی قانون کے اطلاق میں عدم توازن کو دور کرے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ اس ورلڈ آرڈر کی نوعیت ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ دوہرے اور تہرے معیار ہیں، کچھ کے ساتھ امتیازی سلوک اور دوسروں کے لیے امتیاز۔ جس دنیا میں ہم جی رہے ہیں اس کے مسائل کی جڑ یہی دوہرے معیار ہیں۔‘
پاکستان کے سینیئر سفارت کار کا عالمی نظام کے قواعد کی صلاحیت پر یقین مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔
ان کے خیال میں مسئلہ نہ تو اصولوں کی کمی ہے اور نہ ہی قانون کی بلکہ ان کے ’یکساں‘ اطلاق کی کمی ہے۔
منیر اکرم نے ’فرینکلی سپیکنگ‘ کی میزبان کیٹی جینسن کو بتایا کہ ’یہ قوانین سب پر یکساں اور عالمگیر طور پر لاگو ہونے چاہییں۔ لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے۔ بدقمستی سے اسرائیلی استثنیٰ کے اس احساس میں مبتلا ہیں کہ وہ جائیں گے اور لوگوں کو قتل کر دیں گے اور انہیں اس کی کوئی سزا نہیں ملے گی، اور پھر بھی وہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ جب دوسرے ایسا کریں جیسا حماس نے کیا تو وہ دہشت گرد ہیں۔‘
’موجودہ بین الاقوامی آرڈر کی کمزوری کی جڑ یہی دوہرا معیار ہے اور اس کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ لوگوں کو انصاف چاہیے۔ لوگوں کے ساتھ یکساں قوانین کی بنیاد پر یکساں سلوک کرنے کی ضرورت ہے، وہی اصول جن کی ہم سب حمایت کرتے ہیں۔‘
منیر اکرم نے یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 10 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں 35 سو بچے بھی شامل ہیں۔ بعض حکام کے مطابق غزہ میں ہر 10 سیکنڈ میں ایک بچہ ہلاک ہو رہا ہے۔
سینیئر پاکستانی سفارت کار نے دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا کہ غزہ کے تنازع میں ’اصل گناہ‘ حماس کے سات اکتوبر کے حملے نہیں بلکہ فلسطینیوں کی زمینوں پر جاری اسرائیلی قبضہ ہے۔ انہوں نے یہ بات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھی کی تھی۔ جس پر اسرائیل کے حامی گروہوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔
میزبان کے اس سوال پر کہ کیا پاکستان اس تنازع میں فوجی طور پر ملوث ہونے کا ارادہ رکھتا ہے، جیسے کہ غزہ میں امن دستوں کو بھیجنا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ایسی صورتحال پیدا نہیں ہو گی۔
’ہم اس تنازع میں فوجی طور پر شامل نہیں ہونا چاہیں گے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے بارے میں بات کرنا بھی خطرناک ہے۔ ہم ایک پُرامن حل دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی کے لیے ہم کام کر رہے ہیں۔‘