Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ ترقی ہی نہیں جس میں عوام کی بھلائی نہ ہو

غریب کے نصیب میں صرف خواب دیکھنا رہ گیا، خواب بھی ایسے جن کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی
* * * عنبرین فیض احمد ۔ کراچی* * *
پاکستان کو قائم ہوئے 70 سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ قائداعظم کا فرمان تھا کہ غریبوں اور امیروں کو اس ملک میں برابر کے حقوق حاصل ہونگے یعنی سب کو ترقی کے برابر مواقع ملیں گے مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان میں سرمایہ داروں ، جاگیرداروں، وڈیروں نے خوب ترقی کی مگر غریب تو آج بھی غریب ہی ہیں ۔ان کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا کہ کیا کریں اور کہاں جائیں حالانکہ پاکستان کو بنانے میں غریبوں نے مثالی قربانیاں دیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ حالات میں بہتری آنے کے بجائے روزبروز ابتری آتی جارہی ہے۔ مہنگائی ایسی ہے کہ ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے خاندان تو ملک میں ایسے ہیں جن کو دو وقت کی روٹی تک نصیب نہیں۔ نہ غریب والدین بچوں کو تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کرپاتے ہیں۔ وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر بچوں کی خواہشات بھی پوری نہیں کرسکتے۔ انہیں اس کے لئے ہر روز جینا اور مرنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس امیروں کی دسترس میں ہر چیز ہے۔ وہ اپنے بچوں کی خواہشات پوری کرسکتے ہیں۔ وطن عزیز میں اکثر سیاست دان ایسے ہیں جو امیر سے امیرتر ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف عوام غربت کی دلدل میں دھنس رہے ہیں۔
ہم اگر اپنے اطراف میں نظر دوڑائیں تو ایسے انگنت مناظر نظر آئیں گے جن میں نادار، مسکین اور یتیم کوڑے سے کھانے پینے کی چیزیں چنتے دکھائی دیں گے۔ کیا ملک اس طرح ترقی کرتا ہے؟ اسے ترقی کہتے ہیں کہ جہاں کے عوام کچرے کے ڈھیر سے اپنی بھوک مٹاتے نظر آتے ہیں۔ ترقی تو وہ ہوتی ہے جس میں لوگوں کو سہولتیں دی جائیں۔ خواندگی کی شرح میں اضافہ ہو، عوام سکھ و چین کی سانس لیں۔ دھنک کے صفحہ پر راولپنڈی کی تصویر شائع کی گئی ہے جس میں ایک خاتون اسکوٹی چلا رہی ہیں ۔
ایک طرف تو امیر امیر ترین ہورہا ہے اور دوسری طرف غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ خوشحالی کا کہیں نام و نشان دکھائی نہیں دے رہا۔ درمیانہ طبقہ ناپید ہوچکاہے۔ دراصل درمیانے طبقے کے کچھ لوگ اتنے امیر بن گئے کہ ان کا شمار امیروں میں ہونے لگا اور کچھ لوگ اتنے غریب ہوگئے کہ وہ غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ غریب کے نصیب میں صرف خواب دیکھنا رہ گیا وہ بھی اچھی زندگی کے خواب ، خوشیوں بھرے خواب۔ ایسا ماحول جس میں امن ہو، روشن مستقبل ہو، مگر یہ سب خواب ایسے ہیں جن کی ہمارے معاشرے میں کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔ ملک میں غریب عوام کیلئے بہت ے مسائل ہیں۔ ان میں کروڑوں لوگ بے گھر ہیں۔ غریب طبقے کو اپنے گھر کے خواب کو حقیقت میں بدلنے سے محروم کردیا گیا ہے۔ غریب عوام کی بڑی تعداد جھگیوں میں رہنے پر مجبور ہے۔
دوسری جانب ہزاروں گز پر مشتمل محلوں میں چند ہی کنبے بستے ہیں ۔ ان میں کتنے ہی ایسے محلات ہیں جو غریبوں کا خون چوس کر تعمیر کئے گئے ہیں۔ ملکی تاریخ یسے ثابت ہے کہ کچھ لوگوں نے تو بے پناہ دولت اکٹھی کرلی ، اس کے ذرائع جائز ہو ں یا ناجائز، بس اس دولت سے وہ امیروں کی صف میں شامل ہوچکے ہیں۔ شاید اسی لئے آج لوگ حلال و حرام میں فرق کرنا بھول چکے ہیں۔ رشوت خوری، ڈکہ زنی اور لوٹ مار جیسے جرائم عام ہوچکے ہیں۔ اسلامی ملک کہلانے والے معاشرے میں جگہ جگہ غریب اور بھوکے لوگوں کا ہجوم دکھائی رہا ہے۔ یقینا ان لوگوں سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔
اس طرح کا ہجوم ملک کے ہر قصبے گاؤں یہاں تک کہ دور دراز علاقوں کے کونے کونے تک میں دکھائی دیتا ہے۔ ایسی ترقی کو کسی طور ترقی نہیں کہا جاسکتا۔ ملک میں صحیح معنوں میں ترقی ہوتی تو آج ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ کوئی بچہ کوڑے کے ڈھیر سے چیزیں چن چن کر کھا رہا ہے اورآوارہ پھرنے والے جانور کوڑے کے ڈھیر پر منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث شہروں اور گاؤں کی گلیاں تاریکی میں ڈوبی رہتی ہیں۔ ایسے میںان نام نہاد ترقی کے دعووںکو تو ہم ترقی نہیں کہہ سکتے۔ اسے ترقی کہنا ہی غلط ہے جس میںعوام کی بھلائی نہ ہو۔ جس میں عوام کا معیار زندگی بلند ہونے کاڈھونگ رچایا گیا ہو۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرے۔ غربت میں بھی روزبروز اضافہ نظر آرہا ہے۔ غربت و افلاس وطن عزیز کے وہ مسائل ہیں جو صاحبان اختیار نظر آنے چاہئیں، اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ اگر ترقی کرنا ہے تو سب سے پہلے غربت سے پاک معاشرہ قائم کر نا ہوگا۔ معاشرہ پرامن ہونا چاہئے اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو عوام کے ساتھ مخلص ہونا چاہئے۔

شیئر: