چار نسلوں سے آباد ہوٹل مالک کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کوئی مہمان نہیں۔ فوٹو روئٹرز
بیت لحم میں عام طور پر کرسمس کے موقع پر گہماگہمی ہوتی ہے لیکن رواں سال غزہ اسرائیل جنگ نے مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی قصبے سے آنے والے سیاحوں اور زائرین کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔
برطانوی نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق بیت لحم میں ہوٹل، ریستوراں اور کرسمس کے حوالے سے یادگاری اشیا فروخت کرنے والی دکانیں ویران پڑی ہیں۔
بیت المقدس میں کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے اور مغربی کنارے میں پرتشدد کارروائیوں سے یہاں پیدا ہونے والے حالات کی عالمی پیمانے پر پھیل جانے والی خبروں کے باعث یہاں کوئی نہیں آ رہا۔
بیت لحم میں اپنے خاندان کی چار نسلوں سے آباد اور یہاں الیگزینڈر ہوٹل کے مالک جوئی کیناوتی کا کہنا ہے کہ اب تک ہمارے پاس کوئی ایک بھی مہمان نہیں ہے۔
جوئی کیناوتی نے بتایا کہ یہ اب تک کی مایوس کن کرسمس کا موقع ہے، بیت لحم کو مذہبی رسومات کے لیے بند کر دیا گیا ہے، کوئی کرسمس ٹری نہیں، کوئی خوشی نہیں اور کرسمس منانے کا جذبہ نہیں۔
بیت المقدس کے جنوب میں واقع بیت لحم میں قائم چرچ آف دی نیٹیٹی (کلیسا ولادت) کے باعث اس علاقے کی خاص اہمیت ہے، پوری دنیا سے آنے والے عیسائی زائرین یہاں پہنچ کر محسوس کرتے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کی جائے پیدائش پر موجود ہیں۔
ہوٹل کے مالک کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر سے قبل ہمارا ہوٹل کرسمس کے دنوں کے لیے مکمل طور پر بک تھا، یہاں تک کہ ہم قصبے میں کوئی اور جگہ زائرین کے لیے رہائش کی تلاش کر رہے تھے تاکہ ان کی مدد کی جا سکے۔
جوئی کیناوتی نے بتایا کہ علاقے میں جنگی صورتحال کے باعث ہماری تمام بکنگ منسوخ ہو رہی ہیں، ہر ای میل پر منسوخی کا ایک جیسا پیغام ہے۔
انہوں نے روئٹرز ٹیلی ویژن کو اپنے ہوٹل کے خالی کمروں کے دروازے کھول کر دکھائے اور خاموش ڈائننگ ہال کا بھی دورہ کرایا اور بتایا کہ یہاں روزانہ کم از کم 120 مہمان ڈنر کرتے تھے، ہر طرف رونق ہوتی، کرسمس ناشتہ، کرسمس ڈنر اور بوفے جو اب نہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد سے فلسطین میں مغربی کنارے کے علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے، جسے فلسطینی مستقبل کی آزاد ریاست کے مرکز کے طور پر چاہتے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل نے پورے علاقے میں یہودی بستیاں تعمیر کر دی ہیں جنہیں زیادہ تر ممالک غیر قانونی سمجھتے ہیں۔
اسرائیل اس سر زمین کو مذہبی عقیدت اور تاریخی حیثیت کے حوالے سے بیان کرتا ہے اور کئی وزراء اس علاقے میں رہتے ہیں اور بستیوں کی توسیع کے حامی ہیں
بیت لحم کا معروف سکوائر جہاں کرسمس کے موقع پر چہل پہل دیکھی جاتی تھی ان دنوں تقریباً خالی نظر آ رہا ہے، یادگاری اشیاء فروخت کرنے والی اکثر دکانیں بند ہیں۔
علاقے کے رہائشی رونی تابش نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ مل کر ایک سٹور پر کرسمس کی مناسبت سے یادگاری اشیاء فروخت کرتے ہیں اور اب صرف وقت گزارنے کے لیے دکان کی شیلف اور سامان صاف کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تقریباً دو ماہ سے یہاں آنے والے زائرین یا سیاحوں کا انتظار کر رہے ہیں اور ناامیدی ختم کرنے کے لیے اپنا سٹور کھلا رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری دعا ہے کہ تمام حالات معمول کی زندگی کی طرح واپس آ جائیں۔
علاقے میں خاص شہرت رکھنے والے فلافل ریستوراں ’عفتیم‘ کے مالک علاء سلامہ نے بتایا ہے کہ ان کا کاروبار 10 فیصد یا 15 فیصد کی حد تک رہ گیا ہے، جو غیر ملکی زائرین کی معمول کی آمد کے بجائے مقامی فلسطینی خاندانوں تک محدود ہے۔
علاء سلامہ نے بتایا کہ وہ ریستوراں کو صرف اس لیے کھلا رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے سٹاف کو اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کام چاہئے۔
آخر میں علاء نے کہا کہ بیت المقدس وہ شہر ہے جہاں امن نے جنم لیا تھااور یہاں سے پوری دنیا میں امن کا پیغام جانا چاہیے، ہم امن کے لیے دعا کر رہے ہیں۔