Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’استحکام پاکستان ن لیگ سے مانگ توپ کا لائسنس رہی ہے لیکن ملے گا پستول کا‘

سیاسی تجزیہ نگار سلمان غنی کے مطابق استحکام پارٹی اور ن لیگ کے درمیان معاملات ٹھیک ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان میں انتخابات کا موسم تقریبا شروع ہو چکا ہے۔ پیپلزپارٹی جلسوں کی سیاست کر رہی ہے تو ن لیگ کا سارا زور ابھی تک جوڑ توڑ کی طرف ہے۔ مسلم لیگ ایک طرف نئے انتخابی اتحاد بنا رہی ہے تو دوسری جانب اپنے بیانیے کی تشکیل اور پارٹی ٹکٹوں کے ’درست استعمال‘ پر فوکس کر رہی ہے۔
جوڑ توڑ اور انتخابی اتحاد کے حوالے سے آخری بڑی خبر ن لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی کی گزشتہ ہفتے پہلی باضابطہ میٹنگ تھی۔ اس اجلاس کے بعد دونوں طرف سے مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے کمیٹیوں کی تشکیل بھی کی گئی۔
گزشتہ ہفتے کی میٹنگ کے دو روز بعد ہی استحکام پارٹی کے صدر علیم خان کے نیوز ٹی وی چینل پر مریم نواز کے جلالپورجٹاں میں منعقد ہونے والے یوتھ کنونشن کو ایک ناکام جلسے کے طور پر پیش کیا گیا۔
نجی ٹی وی چینل کے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس سے بھی جلسے کی ایسی ویڈیو جاری کی گئی جس میں مریم نواز کی تقریر کے دوران خالی کرسیاں دکھائی گئیں اور جلسے کو ناکام کہا گیا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اس صورت حال پر کئی طرح کے تبصرے دیکھنے کو ملے۔
تحریک انصاف سے منسلک اکاؤنٹس نے ان ویڈیوز کو زور شور سے شئیر کیا گیا اور ساتھ ہی حیرت کا اظہار بھی کیا گیا۔ بعض صحافیوں نے لکھا کہ یہ وقتی طور پر ہے جیسے ہی ’مطالبات‘ پورے ہوں گے یہی جلسے کامیاب ہو جائیں گے۔
استحکام پارٹی کے رہنما نے اُردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’میں زیادہ تبصرہ تو نہیں کر سکتا لیکن ایک بات واضح ہے کہ جہانگیر ترین والی دونوں ملاقاتوں میں علیم خان نہیں تھے۔ چاہے وہ شہباز شریف کے ساتھ ہوئی یا اس کے بعد لیگی وفد کے ساتھ۔ تواس کے بعد اس طرح کا ری ایکشن کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میرے خیال میں بگاڑ والی بات نہیں ہے۔ علیم خان کو لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست پر ٹکٹ تو ملے گا لیکن ان کی خواہش اپنے قریبی ساتھیوں کے ٹکٹس کے لیے بھی ہے۔ کل میٹنگ ہو رہی ہے جس میں ایک پوری فہرست وفاق اور پنجاب کی سیٹوں کے حوالے سے ن لیگ کو دی جائے گی۔‘
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس وقت ن لیگ کو تمام پارٹیوں کو ان کی مرضی کے مطابق الیکشن سے پہلے ایڈجسٹ کرنا ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔

استحکام پاکستان پارٹی میں پی ٹی آئی کے متعدد منحرف رہنماؤں نے شمولیت اختیار کی۔ فوٹو: اے پی پی

سیاسی تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’میرے نزدیک تو استحکام پارٹی اور ن لیگ کے درمیان معاملات ٹھیک ہیں۔ ٹی وی پر مریم نواز کے جلسے کو الٹانا بہرحال ایک عجیب صورت حال ہوئی ہے۔ اور میرے خیال میں اس بات کا تعلق ن لیگ پر پریشر بڑھانا ہے۔ تاکہ ان کے زیادہ سے زیادہ مطالبات مانے جائیں۔ میری خبر کے مطابق آئی پی پی نے اپنی فہرستیں تیار کر لی ہیں اور وہ لمبی چوڑی فہرست ہے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’لیکن جتنا میں ن لیگ کی سیاست کو جانتا ہوں یہ سارا دباؤ نواز شریف پر بڑھایا جا رہا ہے لیکن وہ اپنے کارکنوں کی اتنے بڑے پیمانے پر قربانی نہیں دیں گے کہ باقی جماعتوں کو ہی ایڈجسٹ کرتے رہیں۔ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ استحکام پارٹی توپ کا لائسنس مانگ رہی ہے لیکن انہیں ملے گا صرف پستول کا لائسنس ہی۔ سیاست میں یہ سب تو پھر چلتا ہے۔‘

مریم نواز کے جلسے پر فردوس عاشق کا کہنا تھا کہ ’یقیناً چینل والوں نے وہی دکھایا ہو گا جو حقیقت پر مبنی ہے‘ (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن ایکس اکاؤنٹ)

علیم خان کے چینل کی پالیسی کا پارٹی کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے: فردوس عاشق اعوان
تحریک استحکام پاکستان کا سیاسی اور میڈیا سے متعلق موقف جاننے کے لیے اُردو نیوز نے پارٹی کی ترجمان فردوس عاشق اعوان سے رابطہ کیا۔
ان کا کہنا تھا ’میں پارٹی کی ترجمان ہوں، تاہم ہمارے صدر علیم خان کا نیوز چینل ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس کی پالیسی کا پارٹی کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
’آپ کو یہ لطیفہ محسوس ہو گا لیکن ایسا کئی بار ہوا ہے کہ میری پریس کانفرنس باقی چینلز تو چلا رہے ہوتے ہیں لیکن اس نیوز چینل پر نہیں چل رہی ہوتی جس کے مالک علیم خان ہیں۔‘
مریم نواز کے جلسے کی کوریج اور دیگر پروگراموں میں ن لیگ پر مبینہ تنقید کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں پتا مریم نواز کے جلسے کی کوریج پر کیا کیا گیا لیکن یقیناً چینل والوں نے وہی دکھایا ہو گا جو حقیقت پر مبنی ہے۔‘
’باقی پروگرامز کے اینکرز بھی اپنی پالیسی کے مطابق چلتے ہوں گے، ہر طرف ایسا ہی ہوتا ہے۔ پارٹی کی سطح پر کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ چینل کو استعمال کر کے کسی کے خلاف بھی رائے عامہ بنائی جائے۔‘

شیئر: