غزہ میں ’حالات خراب‘، مصر میں نقل مکانی کے خدشات
ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ایگزیکٹیو نے بتایا کہ ’نصف آبادی بھوک سے مر رہی ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کے خلاف جوابی حملے کر رہا ہے جبکہ فلسطینیوں اور بین الاقوامی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ بھوک کی وجہ سے امن عامہ کو نقصان پہنچ رہا ہے جس سے مصر میں بڑے پیمانے پر منتقلی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ساحلی پٹی کے تنازعے کے آغاز سے اب تک دو ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیلی بندش کا سامنا ہے اور اس محصور علاقے سے نکلنے کا واحد راستہ مصر کے ساتھ سرحد ہے۔
غزہ کے 23 لاکھ افراد میں سے زیادہ تر کو ان کے گھروں سے منتقل کر دیا گیا ہے۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ گنجان آبادی والے انکلیو میں پناہ گاہ یا خوراک کی تلاش ناممکن ہے جہاں 10 ہزار افراد پہلے ہی ہلاک ہو چکے ہیں اور تنازع شدت اختیار کرر ہا ہے۔
غزہ کے باشندوں نے امدادی ٹرکوں پر ہونے والے حملوں اور مہنگائی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ بار بار بھاگنے پر مجبور افراد بھوک اور سردی کے ساتھ ساتھ بمباری سے بھی مر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ایک صارف رولا غنیم نے لکھا کہ ’کیا ہم میں سے کسی کو یہ توقع تھی کہ ہمارے لوگ بھوک سے مر جائیں گے؟ کیا اس سے پہلے کسی کے ذہن میں یہ بات آئی تھی؟‘
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈپٹی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کارل سکاؤ نے سنیچر کو روئٹرز کو بتایا کہ ’نصف آبادی بھوک سے مر رہی ہے، 10 میں سے نو افراد روزانہ نہیں کھا رہے۔‘
ایک فلسطینی شہری نے بتایا کہ انہوں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا اور انہیں اپنے بچوں کے لیے روٹی کی بھیک مانگنا پڑی۔
انتقامی کارروائیوں کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر غزہ کے شہری نے ٹیلی فون پر روئٹرز کو کہا کہ ’میں مضبوط ہونے کا دکھاوا کرتا ہوں لیکن مجھے ڈر ہے کہ میں کسی بھی وقت ان کے سامنے گر جاؤں گا۔‘
یکم دسمبر کو ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے گذشتہ ہفتے جنوب میں زمینی کارروائی شروع کی اور اس کے بعد اسرائیلی ٹینک اتوار کو لڑتے ہوئے جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کے وسط میں پہنچ گئے۔
پیر کے روز عسکریت پسندوں اور کچھ رہائشیوں نے بتایا کہ ’جنگجو اسرائیلی ٹینکوں کو شہر میں مغرب کی جانب مزید بڑھنے سے روک رہے ہیں اور شمالی غزہ میں اسرائیلی افواج کے ساتھ جھڑپیں ہو رہی ہیں، جہاں اسرائیل نے کہا تھا کہ اس کا ’کام بڑی حد تک مکمل ہو چکا ہے۔‘
اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کے درجنوں جنگجوؤں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور دیگر کو بھی ان کے ساتھ شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔ حماس کے مسلح ونگ نے کہا کہ اس نے تل ابیب کی طرف راکٹ فائر کیے تھے جہاں سے اسرائیلی پناہ گاہوں میں بھاگ گئے تھے۔