Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیپیٹل ہل حملہ: مجرموں کو سزا لیکن معمہ حل ہونا باقی

کیپیٹل ہل حملے میں ملوث 750 ملزمان کو سزا سنائی جا چکی ہے۔ فوٹو: روئٹرز
امریکی کانگریس کیپیٹل ہل پر حملے کو تین سال کا عرصہ بیت گیا، مشتبہ افراد کی تلاش کا سلسلہ تاحال جاری ہے لیکن اصل معمہ اب تک حل نہیں ہو سکا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کیپیٹل ہل پر 6 جنوری 2021 کو حملہ ہوا تھا جس میں سینکڑوں افراد کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔
سزا یافتہ افراد میں انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند گروپس کے ارکان، سابق پولیس افسران، اولمپکس میں گول میڈل حاصل کرنے والے گولڈ میڈلسٹ اور امریکی مرین کے اہلکار شامل ہیں۔
کیپیٹل ہل پر حملے کا کیس امریکی تاریخ کی سب سے بڑی فوجداری تحقیق بن گئی ہے۔ واشنگٹن کی وفاقی عدالتوں میں اس مقدمے سے متعلق مجرمانہ درخواستوں اور سزاؤں پر سماعتوں کا رش لگا ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملزمان کی تلاش کا سلسلہ اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکا۔
متعلقہ حکام ابھی تک کیپیٹل ہل میں پرتشدد کارروائیوں میں مطلوب 80 سے زائد افراد کی شناخت کے لیے کام کر رہے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حملے سے ایک دن قبل ریپبلکن اور ڈیموکریٹک قومی کمیٹیوں کے دفاتر کے باہر کس نے پائپ بم رکھے تھے۔ اصل مسٹری یہی ہے جس کا حل ہونا ابھی باقی ہے۔
جبکہ 6 جنوری کے حملے میں ملوث چند افراد اپنی سزا پوری کر کے رہا بھی ہو چکے ہیں لیکن دوسری جانب نئی گرفتاریوں کا بھی سلسلہ جاری ہے۔
کیپیٹل ہل کیس سے متعلق سماعتیں اسی جوڈیشل کمپلیکس میں ہو رہی ہیں جہاں مارچ کے مہینے میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر 2020 کے انتخابات میں مبینہ مداخلت کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ 

6 جنوری 2021 کو ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل ہر دھاوا بولا تھا۔ فوٹو: روئٹرز

اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ کا کہنا ہے کہ ’محکمہ انصاف چھ جنوری کے تمام مجرموں کو قانون کے تحت کسی بھی سطح پر جوابدہ ٹھہرائے گا، چاہے وہ اس دن موجود تھے یا ہماری جمہوریت پر حملے کے لیے مجرمانہ طور پر ذمہ دار تھے۔‘
کیپیٹل حملہ کیس میں 1,230 سے ​​زائد افراد پر وفاقی جرائم کا الزام عائد کیا گیا ہے، جن میں بدعنوانی کے جرائم سے لے کر بغاوت کی سازش جیسے پولیس افسران پر حملے کے جرائم شامل ہیں۔
تقریباً 730 افراد الزامات کا اعتراف کر چکے ہیں جبکہ تقریباً 170 افراد کو جج یا جیوری کے ذریعے طے کیے گئے مقدمے کی سماعت میں کم از کم ایک الزام میں سزا سنائی جا چکی ہے۔
صرف دو ملزمان کو تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دیا گیا ہے۔
تقریباً 750 ملزمان کو سزا سنائی گئی ہے جن میں سے دو تہائی افراد سزائے قید کاٹ رہے ہیں۔ ان مجرموں کو چند دنوں سے لے کر 22 سال کی مدت کی سزائے قید سنائی گئی ہے۔
سب سے طویل سزا انتہائی دائیں بازو کے حامی گروپ ’پراؤڈ بوائز‘ کے سابق چیئرمین اینریکی تاریو کو سنائی گئی ہے جن پر نئے صدر کو اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹیں ڈالنے کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
دفاعی وکلاء اور پراسیکیوٹرز اس کیس کو قریب سے دیکھ رہے ہیں جس کی جلد ہی امریکی سپریم کورٹ میں سماعت کی جائے گی جو 6 جنوری کے سینکڑوں ملزمان پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
لیکن اس کیس سے متعلق سب سے بڑی ’مسٹری‘ جس کا حل ہونا ابھی باقی ہے وہ پائپ بم رکھنے میں ملوث افراد کی شناخت ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے کیپیٹل ہل پر حملے کے لیے اکسایا تھا۔ فوٹو: روئٹرز

گزشتہ سال حکام نے ملوث افراد کی معلومات فراہم کرنے پر انعام کی رقم پانچ لاکھ ڈالر تک بڑھا دی تھی۔ تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں کہ آیا پائپ بم اور کیپیٹل ہل فسادات کے درمیان کوئی تعلق تھا۔
اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تین سال کے عرصے کے دوران تفتیش کار ہزاروں گھنٹوں پر محیط انٹریوز کر چکے ہیں۔
جمعرات کو وفاقی تحقیقاتی ادارے واشنگٹن فیلڈ آفس کے نائب ڈائریکٹر ڈیوڈ سنڈر برج نے بیان میں ان تمام افراد سے سامنے آنے کو کہا ہے جو اس سے متعلق کسی قسم کی معلومات رکھتے ہیں۔
5 جنوری 2021 کو رات ساڑھے سات سے ساڑھے آٹھ بجے کے درمیان ریپبلکن اور ڈیموکریٹک قومی کمیٹیوں کی دو عمارتوں کے باہر دھماکہ خیز مواد رکھا گیا تھا تاہم افسران کو اگلے روز ان کی موجودگی کا علم ہوا۔

شیئر: