Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈپٹی کمشنر زیارت برطانوی دور کی 115 سال پرانی لائبریری کی بحالی کے مشن پر

ڈی سی زیارت کا کہنا ہے کہ لائبریری 2007 میں ڈپٹی کمشنر دفتر کی تعمیر کے لیے منہدم کردی گئی۔ (فوٹو: ڈی سی آفس)
’ضلع کے ڈپٹی کمشنر کا چارج سنبھالنے کے بعد میں نے اپنے دفتر کے عملے سے پوچھا کہ شہر میں کوئی لائبریری نہیں؟
میرے ایک سینئر کلرک نے طنزاً کہا کہ سر لائبریری ہوتی تھی لیکن کئی سال پہلے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے اسے گرا دیا اور آپ کا دفتر اسی جگہ قائم ہے جہاں کبھی لائبریری ہوا کرتی تھی۔
مجھے تب یہ محسوس ہوا کہ میرا دفتر شہر کی تاریخی لائبریری کی  قبر پر قائم ہے۔‘
یہ بلوچستان کے ضلع زیارت کے ڈپٹی کمشنر حمود الرحمان کے الفاظ ہیں جنہوں نے صوبے کے سیاحتی شہر میں برطانوی دور کی 115 سال پرانی لائبریری کو دوبارہ بحال کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
کوئٹہ سے تقریباً 120 کلومیٹر دور زیارت بلوچستان کا پرفضا سیاحتی مقام ہے جہاں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ انگریز دور میں زیارت پولیٹیکل ایجنٹ کا گرمائی دفتر تھا۔
 ڈپٹی کمشنر زیارت حمود الرحمان نے بتایا کہ ’انگریز حکومت نے 1909 میں زیارت میں پہلی پبلک لائبریری قائم کی تھی لیکن برطانوی دور کی یہ لائبریری 2007 میں ڈپٹی کمشنر دفتر کی تعمیر کے لیے منہدم کردی گئی اور تب سے لائبریری عملاً غیر فعال تھی۔‘
 انہوں نے بتایا کہ ’دفتری عملے کے ساتھ ہونے والے مکالمے کے بعد انہوں نے یہ تہیہ کیا کہ وہ دوبارہ لائبریری کو زندہ کرکے یہ قرض اتاریں گے۔‘
ڈپٹی کمشنر کے مطابق انہوں نے برطانوی دور میں ڈپٹی کمشنر کے لیے بنائی گئی عمارت میں لائبریری بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں تعمیراتی کام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
حمودالرحمان نے بتایا کہ ’وہ سی ایس ایس کے امیدواروں کو تیاری میں مدد دیتے ہیں اور انہیں پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں اپنے شاگردوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں لائبریری سے متعلق وائس ایپ مسیج شیئر کیا تھا جس میں ہر طالب علم سے دو کتابیں لائبریری کو عطیہ کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔‘

ڈپٹی کمشنر زیارت حمود الرحمان نے بتایا کہ انگریز حکومت نے 1909 میں زیارت میں پہلی پبلک لائبریری قائم کی تھی۔ (فوٹو: ڈی سی آفس)

ڈپٹی کمشنر کے مطابق یہ میسیج کسی طالبعلم نے وائرل کردیا جس کے بعد ملک بھر سے اچھا رسپانس آرہا ہے اور لوگ کتابیں عطیہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’لائبریری کی تعمیر پر ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے لیکن اس کے لیے کوئی سرکاری فنڈز خرچ نہیں کیے جارہے بلکہ ہم یہ سب اپنی مدد آپ کے تحت فنڈز کا بندوبست کررہے ہیں۔ ہم نے کسی سے کوئی نقد رقم نہیں مانگی تاہم لوگ تعاون کر رہے ہیں۔ کوئی کتابیں عطیہ کررہا ہے تو کوئی فرنیچر اور کچھ لوگوں نے سیمنٹ اور دیگر تعمیراتی سامان بھی دیا ہے۔‘
زیارت کے ڈپٹی کمشنر آفس کے سینئر کلرک محمد ہاشم نے اردو نیوز کو بتایا کہ’برطانوی دور میں اینٹ اور گارے سے بنی عمارت میں قائم لائبریری کی رکنیت فیس دو سے چھ روپے تھی۔ اس دور کے انگریز افسر اور اہم شخصیات اس لائبریری کے رُکن تھے۔‘
 ان کا کہنا تھا کہ ’قیام پاکستان کے بعد 66- 1965 میں ڈپٹی کمشنر سبی اے اے نسیم کمانڈر نے تقریبا 48 ہزار روپے کی لاگت سے ڈپٹی کمشنر دفتر زیارت کے جنوب میں پبلک لائبریری کی عمارت تعمیر کروائی اور علم کے رسیا افراد کے لیے اس میں کتابیں رکھوائیں۔ تب یہ لائبریری ایک ہال اور تین کمروں پر مشتمل تھی۔‘
 انہوں نے بتایا کہ ’1986 میں زیارت کے ضلع بننے کے ساتھ ہی پبلک لائبریری مزید فعال ہوئی۔ کتب کے علاوہ اخبارات اور جرائد بھی لوگوں کو مفت دستیاب ہوا کرتے تھے۔ 1997 میں چیف سیکرٹری بلوچستان زیڈ کے شیر دل نے لائبریری سے ملحقہ ہال میں سنوکر کلب کا اضافہ کیا اور بعد میں ڈپٹی کمشنر عزیزاللہ غلزی نے ٹیبل ٹینس کا اضافہ کیا۔‘
محمد ہاشم کے مطابق ’اس طرح اس احاطے میں لائبریری کے ساتھ ساتھ آفیسرز کلب بھی بن گیا جس سے عوام اور خواص دونوں محظوظ ہوتے تھے، اور ایک ہی عمارت کے نیچے صحت مند ذہنی اور جسمانی سرگرمیاں میسر آئیں۔ لائبریری کے ساتھ چھوٹا سا میوزیم بھی قائم تھا جس میں نواددات اور فوسلز بھی رکھے گئے تھے۔‘

ڈپٹی کمشنر زیارت کا کہنا ہے کہ لائبریری کی گمشدہ تقریباً دو ہزار کتابیں بھی ڈھونڈ لی ہیں۔ (فوٹو: ڈی سی زیارت آفس)

انہوں نے بتایا کہ ’2007 میں سابق گورنر بلوچستان اویس احمد غنی کے دور میں پبلک لائبریری اور کلب کی عمارت گرا کر اس کی جگہ ڈپٹی کمشنر کا دفتر بنایا گیا مگر لائبریری کے لیے کوئی متبادل جگہ فراہم نہ کی گئی۔ لائبریری کی دو ہزار کتابیں اس وقت کے سوشل ویلفیئر کے دفتر میں ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھ دی گئیں جبکہ بہت ساری کتب بوریوں میں پڑی خراب ہوگئیں یا کھوگئیں جس کی وجہ سے لوگوں کا کتاب سے رشتہ ٹوٹ گیا۔‘
ڈپٹی کمشنر زیارت کے مطابق ’ہم نے گمشدہ لائبریری کی تقریباً دو ہزار کتابیں بھی ڈھونڈ لی ہیں جو محکمۂ سماجی بہبود کے دفتر میں رکھی ہوئی تھی جبکہ لوگ اب بڑی تعداد میں کتابیں عطیہ کررہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری پوری کوشش ہے کہ دو ماہ میں تعمیراتی کام مکمل کرکے لائبریری کو فعال کیا جائے تاکہ مقامی لوگوں، طالب علموں کے علاوہ سیاحت کے لیے آنے والے افراد کو مطالعے کے لیے ناصرف اچھی کتابیں مل سکیں بلکہ وہ پرسکون ماحول میں مطالعہ بھی کر سکیں۔‘

شیئر: