Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایرانی حملہ تعلقات اور خطے کے استحکام کےلیے نقصان دہ، سیاسی اور سفارتی ردعمل

ضلع پنجگور میں کیے جانے والے حملے میں دو بچیوں کی ہلاکت ہوئی (فائل فوٹو: عرب نیوز)
پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں اور سفارتی حلقوں نے پاکستانی حدود میں ایران کے بلااشتعال حملے کو دوطرفہ تعلقات اور خطے کے استحکام کے حوالے سے نقصان دہ قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ ایران کی جانب سے منگل کو رات گئے پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ’جیش العدل‘ کے ٹھکانوں کو ’میزائل اور ڈرون‘ سے نشانہ بنانے کا دعوی کیا گیا تھا۔
پاکستانی حکام کاکہنا تھا کہ ایران سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع پنجگور میں کیے جانے والے حملے میں دو بچیوں کی ہلاکت ہوئی۔
سابق وزیراعظم شہباز شریف نے ’ایکس‘ پر لکھا ’ ایران کی جانب سے پاکستان سالمیت کی خلاف ورزی پر حیران ہوں۔ یہ میزائل حملہ ہماری دوستی کی روح اور اچھے ہمسائیگی کے اصولوں کے خلاف ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تاریخی تعلقات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ‘
’دونوں ممالک کے درمیان مخلصانہ بات چیت اور بامعنی تعاون وقت کی ضرورت ہے۔‘
تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات روف حسن کا کہنا تھا کہ ’ایران کی جانب سے پاکستانی حدود میں حملہ بلا اشتعال اور ننگی جارحیت پر مبنی اقدام ہے۔‘
انہوں نے دفتر خارجہ کا ردعمل کو معذرت خواہانہ قرار دیتے ہوئے کہا’ انتقامی کارروائی کی دھمکیاں ماضی میں بھی کھوکھلی ثابت ہوئی ہیں اور اس بار بھی مختلف نتائج کی توقع نہیں ہے۔‘
روف حسن کا کہنا تھا ’ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ہماری انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیاں سوتی پائی گئی ہیں۔‘
انہوں نے کہا ’یہ سنجیدہ خود شناسی کا وقت ہے۔ اندرونی جائزہ اور انکوائری کا وقت ہے۔ مستقبل میں اس طرح کی دراندازیوں کو روکنے اور اپنے بیانیے کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیارکرنے کا وقت ہے۔‘
’سب سے اہم، ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کا وقت ہے تاکہ ایک عوامی مینڈیٹ کی حامل حکومت اقتدار سنبھالے جس کو ملک کی آزادی اور خودمختاری کے دفاع کے لیے سخت موقف اختیار کرنے کا اختیار اور عوامی سطح پر حمایت حاصل ہو۔‘
سینیٹر شیری رحمٰن نےایران کی جانب سے پاکستان کی سرحد کے اندر بلا اشتعال حملہ ناقابل قبول اور قابل مذمت قرار دیا۔
ایکس اکاونٹ پر لکھا ’جب بھی دہشت گرد گروپوں کی جانب سے پاک، ایران سرحد پر ہنگامہ آرائی ہوئی ہے پاکستان نے تحمل سے کام لیا ہے اور ہمیشہ دہشت گردی کے بین الاقوامی چیلنج پر اجتماعی ردعمل کی کوشش کی ہے۔‘
اسے پاکستان کی سٹریٹجک پختگی سمجھنا چاہیے نہ کہ کمزوری کے طور پر۔‘
سینیٹر شیری رحمن نے کہا ’اس طرح کےحملے مسلم اتحاد کو اس وقت نقصان پہنچاتے ہیں جب مشترکہ طور پر تعاون کے لیے فورمز بنانے کی اشد ضرورت ہے جبکہ غزۃ میں اسرائیل کے ہاتھوں نسل کشی کا سلسلہ بلاروک ٹوک جاری ہے۔‘
 ’کشیدگی میں کمی کے لیے تہران کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہو گی کہ تشدد اور تنازعات  وہی ہیں جوغیر ریاستی عناصر اور دہشت گرد چاہتے ہیں۔ اس سے انہیں تشدد کے پھیلاو کے لیے زرخیز زمین ملتی ہے‘
پاکستان کا اس طرح کے تنازع کی آگ کو بھڑکانے میں کوئی کردار نہیں ہے لیکن اگر ایران نے سمجھداری سے کام نہ لیا تو ظاہر ہے اس کا جواب دینا پڑے گا۔‘
سابق وزیر سینیٹر مشاہد حسین سید نے آفیشل ’ایکس‘ اکاونٹ پر ایران کے حملے پر پاکستان کے ردعمل کو درست، میچور اور نپا تلا قرار دیا۔
مشاہد حسین کا کہنا تھا ’یہ تحمل اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے کو ظاہر کرتا ہے تاہم ایرانی حکومت کو چاہیے کہ وہ وہ اپنی’ ڈیپ سٹیٹ‘ یعنی پاسدارا ن انقلاب کو لگام لگائے جس کے اشتعال انگیز اقدامات نہ صرف پاکستان ایران تعلقات کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ خطے کو عدم استحکام کا شکار کرکے ایران کے اپنے مفادات کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘
انڈیا میں پاکستدان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے ایکس پر لکھا ’ایران مسلم دنیا میں تقسیم کا ایک بڑا سبب رہا ہے۔ اسے پاکستان کو دور کرنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں سابق مستقل مندوب ملیحہ لودھی کا کہنا تھا’ ایران کے اس حملے سے بہت  سے سوال اٹھتے ہیں۔ یہ حیران کن اقدام تھا۔‘
ایک دن پہلے ایک اعلی سطح کا ایرانی وفد آیا ہوا تھا اور پاکستان سے مذاکرات میں مصروف جبکہ دونوں ملکوں کی مشترکہ مشقیں بھی جاری ہیں۔
نجی ٹی ی چینل کو انٹرویو میں ملیحہ لودھی نے کہا ’ایک ایسے وقت میں جب مشرق وسطی میں صورتحال کشیدہ ہے ۔غزہ میں جنگ ہو رہی ہے۔ کوئی یہ توقع نہیں رکھتا تھا کہ ایران ا س طرح کا ایکش لے گا۔‘

ملیحہ لودھی کا کہنا تھا ایرانی حملے پر پاکستان کا ردعمل درست ہے (فوٹو: ایکس اکاونٹ)

یہ بات حقیقت ہے اک عرصے سے پاکستان اور ایران دونوں کی یہ شکایت رہی ہےکہ آپ کے یہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں جو سرحد پار حملوں میں ملوث ہیں۔‘
تاہم اس مسئلہ کا مذاکرات کے ذریعے کوئی حل نہیں نکلا جو حیران کن ہے۔ ایران کا ایکشن عالمی قوانین کے خلا ف تھا۔ پاکستانی خود مختاری کی خلاف ورزی تھی۔
ایک سوال پر انہو ں نے کہا ’ ایرانی حملے پر پاکستان کا ردعمل درست ہے تاہم اس سے اس سے زیاہ ردعمل دینے کے بجائے کشیدگی کو کم کرنے چاہیے۔ پاکستان نے دوٹوک کہ دیا ہے کہ اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔‘
اسلام آباد کو توقع ہے ایران اس پر معذرت کرے گا اور وضاحت دے گا کہ انہوں نے یہ ایکشن کیوں لیا۔ پاکستان نے ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلا یا ہے۔ اب دیکھنا ہے ایران کی طر ف کیا ردعمل آتا ہے۔ 

شیئر: