غزہ کے ہسپتالوں میں مریض ادویات، کھانے اور پانی کے لیے ترس رہے ہیں: ڈبلیو ایچ او
غزہ کے ہسپتالوں میں مریض ادویات، کھانے اور پانی کے لیے ترس رہے ہیں: ڈبلیو ایچ او
جمعرات 18 جنوری 2024 6:41
ہسپتالوں میں ادویات اور ایندھن کی بھی کمی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ کے دوران اب تک 60 ہزار سے زیادہ فلسطینی زخمی ہوئے ہیں اور روزانہ 200 سے زیادہ افراد زخمیوں کی فہرست میں شامل ہو رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ فلسطینی نہ صرف مناسب طبی امداد سے محروم ہیں بلکہ انہیں زندہ رہنے کے لیے خوراک اور پانی کی بھی اشد ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے امدادی طبی ادارے نے غزہ میں نظام صحت کی بھیانک صورتحال کا نقشہ پیش کیا ہے جہاں انسانی امداد اور ہیلتھ ورکرز کی رسائی پر مسلسل پابندیاں عائد ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی ایمرجنسی ٹیم کے کورآرڈینیٹر سیئن کیسی نے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس بحران میں مایوسی کی نئی سطح کو مناسب طریقے سے حل کرنے کا واحد راستہ ہے۔
سیئن کیسی غزہ کے پانچ ہفتوں کے دورے کے بعد نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اپنے سفر کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ ’ان کی ٹیم نے ہر دن، سات دن کے لیے شمالی غزہ کو ایندھن اور سامان پہنچانے کی کوشش کی ہے اور ہر روز تعاون پر مبنی نقل و حرکت کے لیے ان کی درخواستوں کو مسترد کیا گیا۔‘
’ہمیں ان لوگوں کے لیے دوائیں لانے سے روکا گیا جنہیں ان کی ضرورت تھی۔ ڈائیلاسز مشینوں کے لیے پانی لانے تک جس کے لیے لوگ انتظار میں تھے۔ وہاں رسائی اور حفاظت سب سے اہم ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے ہسپتالوں میں مریض ادویات، کھانے اور پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔
انہوں نے اُس سنگین صورتحال کی جانب اشارہ کیا جس کا مشاہدہ انہوں نے الشفا ہسپتال اور دیگر 16 ہسپتالوں کے دوروں کے دوران کیا۔ یہ وہ ہسپتال ہیں جو بہت ہی کم وسائل کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
سیئن کیسی کا کہنا تھا کہ ’میں جب بھی ہسپتالوں میں گیا، میں نے بار بار انسانی تباہی کے ثبوت دیکھے اور ہر روز صحت کے نظام کی تباہی، ہسپتالوں کے بند ہونے کے ساتھ ہیلتھ ورکرز محفوظ علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں، ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے، ادویات اور طبی سامان کی رسائی کا فقدان، اور روشنی کے لیے جنریٹروں میں ایندھن کی کمی۔‘
اگرچہ سیئن کیسی نے الشفا ہسپتال کا دورہ کیا تھا تاہم 12 دنوں تک ان کی ٹیم کوئی خوراک یا طبی سامان پہنچانے میں ناکام رہی۔
پورا ہسپتال سینکڑوں بے گھر افراد سے بھرا ہوا تھا، جو آپریشن تھیٹر، راہداریوں اور سیڑھیوں میں رہ رہے تھے۔ اور ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں ایک دن میں سینکڑوں مریضوں کا علاج ہو رہا تھا اور پانچ یا چھ ڈاکٹرز اور نرسز ان کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔‘
انہوں نے شمالی غزہ میں الاہلی ہسپتال کے مریضوں کے بارے میں بات کی، جو گرجا گھر کے بینچز پر پڑے ہوئے تھے اور ’مرنے کا انتظار‘ کر ہے تھے۔
مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد پر واقع رفح تقریباً 10 لاکھ بے گھر افراد کی میزبانی کر رہا ہے۔
سیئن کیسی نے کہا کہ اندرونی طور پر بے گھر افراد کی اتنی بڑی تعداد سے نمٹنے کے لیے رفح میں صحت کی دیکھ بھال کا بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے۔ اس کے پاس لوگوں کی میزبانی کے لیے جگہ دستیاب نہیں وہ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او اضافی فیلڈ ہسپتال قائم کرنے اور مزید ہیلتھ ورکرز فراہم کرنے کے لیے کام کر رہا ہے تاکہ ان لوگوں کی جگہ لے سکیں جو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بے گھر افراد جنہوں نے مال و اسباب کھو دیے ہیں۔ وہ خیموں میں سونے پر مجبور ہیں جن میں زندگی کی بنیادی ضروریات بشمول خوراک، صاف پانی، گرمی اور مناسب رہائش تک نہیں ہے، اور وہ متعدی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔