پی ٹی أئی چھوڑ کر کون کون سے رہنما انتخابی میدان میں اترے ہیں؟
پی ٹی أئی چھوڑ کر کون کون سے رہنما انتخابی میدان میں اترے ہیں؟
جمعہ 19 جنوری 2024 13:09
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
9 مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے متعدد رہنما اور کارکنان پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
گذشتہ سال 9 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے احتجاج بالخصوص لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے بیسیوں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور رہنماؤں نے اپنی جماعت سے علیحدگی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا۔
ان رہنماؤں میں نمایاں پارٹی کے سیکریٹری جنرل عامر کیانی، سابق وزیراعلٰی اور وزیر دفاع پرویز خٹک، فواد چوہدری، شیریں مزاری، اسد عمر، غلام سرور خان، فیاض الحسن چوہان، سابق وزیراعلٰی عثمان بزدار، خسرو بختیار اور بہت سے اہم رہنما شامل تھے۔
کچھ رہنماؤں نے غیراعلانیہ طور پر بھی پارٹی سے راہیں جدا کر لیں اور دوسری جماعتوں میں شامل ہو گئے بالخصوص جہانگیر ترین کی جماعت استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہونے والے کئی رہنماؤں کا تعلق بھی تحریک انصاف ہی سے ہے۔
اسی طرح سابق وزیراعلٰی اور وزیر دفاع پرویز خٹک کی جماعت تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز میں شامل ہونے والے بیشتر رہنماؤں کا تعلق بھی تحریک انصاف سے ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پریس کانفرنس میں سیاست چھوڑنے کا اعلان کرنے والوں میں سے کئی ایک انتخابی شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد استحکام پاکستان پارٹی یا کسی اور پلیٹ فارم سے سیاست کے میدان میں اترے ہیں۔
سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے پھر امیدوار بن گئے
9 مئی کے واقعات کے بعد اسلام آباد لاہور اور دیگر شہروں کے پریس کلبوں میں پریس کانفرنس کر کے سیاست سے کنارہ کشی کرنے والوں کا تانتا بن گیا۔ لیکن جونہی ماحول بہتر ہوا اور ملک میں انتخابات کا شیڈول سامنے آیا تو ان میں سے اکثر لوگ ایک بار پھر امیدوار بن کر سامنے آگئے۔
عامر کیانی
عامر کیانی پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل اور عمران خان کی اولین کابینہ کے وفاقی وزیر تھے۔ عمران خان نے کرپشن کے الزام پر انہیں کابینہ سے برطرف کیا تھا لیکن کچھ ہی عرصے بعد انہیں پارٹی کا سیکریٹری جنرل مقرر کر دیا تھا۔
9 مئی کے واقعات کے بعد پریس کانفرنس کرنے والوں میں وہ سب سے پہلے فرد تھے جنہوں نے سیاست اور پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
عامر کیانی بعد ازاں استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو گئے اور اسلام آباد سے امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔ نون لیگ نے ان کے لیے اسلام اباد میں سیٹ خالی بھی چھوڑی تھی لیکن استحکام پاکستان پارٹی نے راجہ خرم نواز کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا جو آزاد امیدوار کی حیثیت سے این اے 48 سے میدان میں موجود ہیں۔
راجہ خرم نواز
راجہ خرم نواز بھی ان رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے سیاست اور پارٹی دونوں سے علیحدگی کا اعلان ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ لیکن وہ اس وقت انار کے انتخابی نشان پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کے حمایت یافتہ امیدوار ہیں۔
راجہ خرم نواز کا تعلق اسلام آباد کے دیہی علاقے سے ہے اور وہ تحریک انصاف کے سرگرم رہنما رہے ہیں۔
سال 2018 میں وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو شکست سے دوچار کیا تھا۔
پرویز خٹک
عمران خان کے دست راست اور انتہائی قریبی ساتھی پرویز خٹک جو تحریک انصاف کے پہلے دور حکومت میں خیبر پختون خوا کے وزیراعلٰی بنے اور 2018 میں عمران خان نے انہیں وزارت دفاع کا قلمدان سونپا۔ وہ جلسوں میں سب سے زیادہ افرادی قوت لانے والے رہنماؤں میں سے ایک تھے۔
9 مئی کے واقعات کے بعد انہیں مختصر عرصہ کے لیے گرفتاری کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کے بعد انہوں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا۔
کچھ ہی دنوں بعد انہوں نے خیبر پختون خوا میں ایک نئی جماعت تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز بنائی اور تحریک انصاف کے کئی سابق رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
ایک ایسے وقت میں جب تحریک انصاف اپنا انتخابی نشان کھونے کے بعد آزاد امیدواروں کے ساتھ میدان میں موجود ہے، پرویز خٹک اپنی جماعت کے انتخابی نشان پگڑی کے ساتھ انتخاب لڑ رہے ہیں اور اپنی جماعت کی قیادت کر رہے ہیں۔
عثمان بزدار
عمران خان کے وسیم اکرم پلس عثمان بزدار ایک ایسی شخصیت ہیں جن کے لیے عمران خان نے نہ صرف اپنی جماعت کے اندر بلکہ جماعت سے باہر مقتدر حلقوں سے بھی مخالفت مول لی۔
9 مئی کے واقعے کے بعد سابق وزیراعلٰی پنجاب روپوش ہو گئے اور ایک دن بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے پریس کلب میں وارد ہوئے۔
انہوں نے بھی دیگر رہنماؤں کی طرح سیاست اور تحریک انصاف سے کنارہ کشی کا اعلان کیا۔
آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے لیے وہ پہلے آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں آئے اور بعد ازاں انہوں نے مسلم لیگ ضیا میں شمولیت کا اعلان کیا۔
فواد چوہدری
سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اگرچہ کوئی باضابطہ پریس کانفرنس نہیں کی لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری سے بچنے کے لیے دوڑ لگانے والے فواد چوہدری جب رات گئے تک ہائی کورٹ میں موجود رہے تو اس کے بعد انہوں نے وقتی طور پر سیاست سے وقفہ لینے کا اعلان کیا۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد وہ استحکام پاکستان پارٹی کی لانچنگ تقریب میں عقبی نشستوں پر موجود تھے۔
بعد ازاں فواد چوہدری استحکام پاکستان پارٹی کے پلیٹ فارم سے بالکل بھی متحرک نظر نہیں آئے جس کے بعد وہ ایک بار پھر گرفتار ہو گئے۔
فواد چوہدری جہلم کے اپنے حلقۂ انتخاب سے ایک بار پھر امیدوار کے طور پر سامنے آئے تاہم ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے جس کے خلاف انہوں نے ہائی کورٹ میں اپیل کر رکھی ہے۔
فیاض الحسن چوہان
پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں اپنے مخالفین پر سب سے زیادہ تنقید کرنے والے فیاض الحسن چوہان بھی ان رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے پریس کانفرنس کی اور اس کے ساتھ ہی عمران خان اور ان کی جماعت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا اور وقتی طور پر سیاست سے الگ ہو گئے۔
اس اعلان کے کچھ ہی دنوں بعد وہ بھی استحکام پاکستان پارٹی کو پیارے ہو گئے اور اسی لب و لہجے کے ساتھ اب عمران خان اور ان کے حامیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
فیاض الحسن چوہان بھی راولپنڈی کے صوبائی حلقے سے امیدوار ہیں۔
اس کے علاوہ جنید چیمہ اور مسرت چیمہ بھی پریس کانفرنس کر کے سیاست سے علیحدگی کا اعلان کر چکے تھے اور انہوں نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے لیکن انہیں اپنی پارٹی یعنی استحکام پاکستان پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا جس کے بعد وہ انتخابات سے دستبردار ہو گئے ہیں۔
وہ رہنما جو سیاست سے باہر ہوگئے اور انتخاب نہیں لڑ رہے؟
9 مئی کے واقعات کے بعد جن لوگوں نے سیاست اور تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کیا ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے اعلان پر کاربند ہیں اور انتخابی عمل میں حصہ نہیں لے رہے۔
اسد عمر
پاکستان تحریک انصاف میں عمران خان کے جانشین سمجھے جانے والے اسد عمر نے پہلے تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دیا اور بعد ازاں سیاست ہی چھوڑ گئے۔
اپنے اعلان پر انہیں عمران خان کی ناراضی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
تاہم انہوں نے سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا اور اب گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں اور انتخابی عمل سے باہر ہیں۔
شیریں مزاری
پاکستان تحریک انصاف کی اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیری مزاری نے بھی پے در پے گرفتاریوں کے بعد ایک پریس کانفرنس میں سیاست سے علیحدگی کا اعلان کیا۔
وہ پاکستان تحریک انصاف کی شاید واحد رہنما ہیں جنہیں اس اعلان کے باوجود عمران خان اور تحریک انصاف کی نظر میں عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔
تحریک انصاف اور سیاست سے علیحدگی کے بعد وہ عملی سیاست سے الگ ہو کر اپنی معمول کی زندگی گزار رہی ہے اور صرف ٹوئٹر کی حد تک ہی عالمی امور پر اپنی رائے کا اظہار کرتی ہیں جبکہ مقامی سیاست کے بارے میں انہوں نے کبھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
شیری مزاری اگرچہ پہلے بھی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں لیکن اس بار انہوں نے مخصوص نشست پر بھی کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے۔
ملیکہ بخاری
اڈیالہ جیل سے رہا ہونے کے بعد شدید افسردگی کی حالت میں پریس کانفرنس کرنے والی ملیکہ بخاری تحریک انصاف کی اہم رہنما اور پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون و انصاف تھیں۔
9 مئی کے واقعات کے بعد وہ گرفتار ہوئی اور بعد ازاں ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے بھی سیاست سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ وہ ٹوئٹر پر اگرچہ اپنی سیاسی رائے اور تحریک انصاف سے ہمدردی کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں لیکن عملی سیاست سے بالکل علیحدہ ہو چکی ہیں۔
وہ بھی مخصوص نشست پر منتخب ہوئی تھیں لیکن اس بار انہوں نے بھی کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے۔
صداقت عباسی
مری میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو شکست دینے والے صداقت عباسی پاکستان تحریک انصاف کے اولین کارکنان میں سے تھے۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد گرفتار ہوئے اور پھر انہوں نے ایک متنازع ٹی وی پروگرام میں تحریک انصاف اور سیاست سے علیحدگی کا اعلان کیا۔
اس اعلان کے بعد جب وہ اپنے گھر پہنچے تو اپنے اہل خانہ سے روتے ہوئے ملنے کی ان کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی۔
تب سے صداقت عباسی روپوش ہیں اور گوشہ نشینی میں زندگی گزار رہے ہیں۔
انتخابات کا شیڈول سامنے آنے کے باوجود وہ کبھی سامنے نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے انتخابی عمل میں حصہ لیا ہے۔
عثمان ڈار
سیالکوٹ سے خواجہ آصف کے مد مقابل عثمان ڈار نے بھی پروگرام میں سیاست سے علیحدگی اور تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ اپنے اس اعلان کے بعد وہ خود تو میدان سیاست میں موجود نہیں ہیں تاہم ان کی والدہ ریحانہ ڈار نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور اس سے قبل ہی انہوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا تھا۔
چند روز قبل جب ریحانہ ڈار کے گھر پر پولیس نے مبینہ طور پر چھاپہ مارا تو اس وقت عثمان ڈار سامنے آئے اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی والدہ کا ساتھ دینے اور ان کی انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا۔