Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلاول، مریم اور کپتان سے پانچ سوال، اجمل جامی کا کالم

کیا میری قیادت مہنگائی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی بجائے یہ جانتی ہے کہ اس وقت افراط زر خطے میں سب سے زیادہ ہمارے ہاں ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
سن رہے ہیں کہ ملک بھر میں چناؤ ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ان دنوں اپنے تئیں انتخابی مہم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، اس دوران کپتان اندر ہیں جبکہ دیگر جماعتیں ان ایکشن دکھائی دے رہی ہیں۔
اندر ہونے کے باوجود کپتان کی پارٹی البتہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا وجود منوانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ اصل چیلنج مگر پولنگ ڈے پر مقبولیت کو ٹھپے میں بدلنا ہو گا۔ کون کہاں کھڑا ہے، کیا بیچ رہا ہے، کون کہاں حکومت بنائے گا اور کیسے بنائے گا، یہ سوال اپنی جگہ لیکن سردست جب سیاسی منظر نامے کی عجب حالت دیکھی تو سوال پیدا ہوا کہ کیوں نہ اس زِیرک، دور اندیش اور سیاسی بصیرت سے مالا مال قیادت سے کچھ بنیادی سوال پوچھ لیے جائیں۔
سوال وہ جو آپ کی روزی روٹی، قومی مفاد، امن شانتی، اور بھلائی سے جڑے ہوں۔ تو اس سلسلے میں خاکسار نے جناب بلاول بھٹو زرداری، جناب عمران خان اور ان کی جماعت اور محترمہ مریم نواز شریف کا انتخاب کیا۔
سوال نمبر ایک: کیا میری قیادت مہنگائی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی بجائے یہ جانتی ہے کہ اس وقت افراط زر خطے میں سب سے زیادہ ہمارے ہاں ہے اور گزرے برس وسط میں یہ شرح ہماری 20 سالہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی؟
کیا گرم کمروں میں اعلٰی برینڈز کے کپڑوں میں ملبوس میری قیادت جانتی ہے کہ غریب کا بچہ کس حال میں ہے؟ اس کا دودھ پانی کیسے پورا ہورہا ہے؟ دو وقت کی روٹی میرا مزدور کیسے پوری کر رہا ہے؟
کیا میری قیادت کو علم ہے کہ غریب کا مسئلہ سیاسی جہاد نہیں چولہا جلانا ہے؟ میری سیاست کا منشور اس مدعے پر محض نعروں اور وعدوں کی حد تک ہی کیوں محدود ہے؟ ووٹ لینے کے لیے بریانی پلاؤ یا دو چار ہزار روپے دینے سے کیا میرے مزدور کا مستقبل سنور جائے گا؟
کیا اسے امید اور یقین ہوگا کہ چند ماہ میں انقلاب برپا ہونے سے اسے روزگار کے مناسب مواقع فراہم ہو جائیں گے؟
آپ اسی مزدور کے لیے بارہا بجلی کے فری یونٹس دینے کا اعلان کرتے ہیں یا پانی سے مفت بجلی پیدا کرنے کا وعدہ تو کرتے ہیں لیکن یہ بتلائیے کہ یہ سب کیسے ہو گا؟ کہاں سے ہو گا؟ کب ہو گا؟ قابل عمل فارمولا کسی جلسے یا ٹی وی کے مباحثے میں پیش کرنے میں حرج ہی آخر کیا ہے؟ 

کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں ان موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کوئی قابل عمل پروگرام شامل ہے؟ (فوٹو: روئٹرز)

سوال نمبر دو: وفاقی وزرات تعلیم نے چند روز پہلے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق پاکستان بھر میں دو کروڑ 62 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ سب سے زیادہ بلوچستان میں 65 فیصد بچے سکول نہیں جا رہے اور تو اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی آٹھ لاکھ بچے سکول سے محروم ہیں۔ کیا میری دور اندیش قیادت کے سامنے یہ رپورٹ پیش کی گئی؟ 
کیا میری قابل اور لائق قیادت یہ رپورٹ دیکھ کر شدید تشویش کا شکار ہوئی؟ کیا میری قیادت نے فوراً اپنی اپنی جماعتوں کے تعلیمی ماہرین کے ساتھ طویل اجلاس منعقد کرتے ہوئے اس کا حل نکالا کہ کیسے ان بچوں کو سکول تک پہنچانا ہے؟
کیا میری پڑھی لکھی قیادت نے عوام کو بتایا کہ کیوں اس ایک نقطے پر سب سے زیادہ فوکس کرنا لازم ہے؟ اور کیسے اس مدعے پر توجہ مستقبل سنوار سکتا ہے؟
کیا میرے ان رہنماؤں نے ووٹر سپورٹر کی رہنمائی کے لیے اس ایک بنیادی مسئلے کی جانب نشاندہی اپنے سیاسی جلسوں میں بھی کی؟ مان لیا کہ کپتان اندر ہیں، لیکن ان کے آزاد امیدواروں یا دیگر ذمہ داران نے بھی اس مدعے پر کوئی بیان دیا؟
کیا شیر افضل مروت، بیرسٹر گوہر یا سلمان اکرم راجہ جیسے دانشوروں کو بھی فرصت ملی کہ اس پر بات کر سکیں؟ مان لیا کہ یہ سب دباؤ کا شکار ہیں، مقدمات بھگت رہے ہیں، لیول پلیئنگ فیلڈ ڈھونڈ رہے ہیں لیکن کیا انہیں اس اہم نقطے پر بھی بات کرنے سے روکا جا رہا ہے؟

انڈیا، افغانستان اور ایران جیسے ہمسایوں کے ساتھ کیسے برابری کی سطح پر پُرامن تعلقات استوار رکھنے ہیں؟ (فوٹو: سکرین گریب)

سوال نمبر تین: موسم سرما آدھا گزر چکا، نہ برف نہ بارش، جنوری تقریباً اداسی ہی میں گزر گیا، ایسا خشک موسم سرما کہ مثال ہی نہیں ملتی۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سمندری پانی کے درجہ حرارت میں غیرمعمولی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور اسے ’ایلنینو ایفکٹ‘ کہتے ہیں، اس وجہ سے جہاں سمندری پانی کا ٹمپریچر متاثر ہوتا ہے وہیں میدانی علاقوں میں خشک سردی اور بارشوں کی کمی کا سامنا بھی رہتا ہے۔
 ساتھ ہی پہاڑی علاقوں میں برف باری بھی نہیں ہوتی۔ اسی ایفکیٹ کی وجہ سے سمندری ہواؤں اور بادلوں میں نمی کی اتنی مقدار شامل نہیں ہوتی جو پہاڑی اور میدانی علاقوں میں برف باری اور بارش کا باعث بنتی ہے۔ لہذا طویل خشکی کا سامنا رہے گا۔
برفباری نہ ہونے سے صرف پہاڑی علاقوں کی معیشت پر ہی اثر نہیں پڑے گا بلکہ بعد میں دریا بھی سوکھ سکتے ہیں، اور ظاہر ہے اس سے ملک کا زرعی علاقہ بھی متاثر ہو گا۔ تو کیا کسی سیاسی جماعت کے منشور میں ان موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کوئی قابل عمل پروگرام شامل ہے؟
کیا میری قیادت کے پاس کسان کارڈ کے علاوہ زمین بنجر ہونے سے بچاو کا فارمولا بھی ہے؟ کیا میری قیادت جانتی ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے؟ کیا میری قیادت اس بابت بین الاقوامی ماہرین سے رابطے میں ہے؟
کیا میری قیادت میرے کسان، میری زراعت، میری فصلوں اور میرے دریاؤں کو زندہ رکھنے کی اہلیت رکھتی ہے؟ کیا یہ لائق فائق سیاستدان جلسوں میں ایک دوسرے پر جملے کسنے کے علاوہ میرے کسان سے بھی مخاطب ہوکر اسے امید دلاتے ہیں؟

وفاقی وزرات تعلیم نے چند روز پہلے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق پاکستان بھر میں دو کروڑ 62 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سوال نمبر چار: سنہ 2021 میں پاکستان کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 41 فیصد تھی جو حالیہ دو برسوں میں مزید بڑھ چکی، پاکستان واحد ملک ہے جہاں آبادی میں نوجوانوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ چند برس پہلے تک نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 64 فیصد 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل تھا۔
کیا میرے مقبول ترین رہنما نوجوانوں کے روزگار کے لیے کوئی ٹھوس پلان پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں؟ کیا یہ کرشماتی قیادت نوجوان کو سیاسی ایندھن بنانے کی بجائے اس کے سامنے واقعی کوئی قابل عمل بیانیہ رکھتی ہے؟
لیپ ٹاپ، سوشل میڈیا، نعرے بازی یا ہیش ٹیگز کی بجائے تعلیم و تربیت ، ہنر اور روزگار کی فراہمی کا کوئی خواب دکھاتی ہے؟ اس مدعے پر ٹاک شوز میں یہ رہنما قابل عمل اور قابل فخر پلان پیش کر کے مخالف سیاسی رہنما کو لاجواب کرتے ہیں؟ بات چونکہ نوجوانوں کی ہورہی ہے تو یاد رہے کھیل کے میدان بھی انہی کے دم سے ہیں، کھیل کے میدان آباد کب ہوں گے؟
قومی کھیل شاید اب بھی ہاکی ہے، تین بار کی اولمپکس اور چار بار کی ورلڈ کپ فاتح قومی ٹیم تیسری بار اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی، کیا میری قیادت جانتی ہے کہ قومی کھیل ہاکی کی قومی ٹیم کے قومی کپتان کا نام کیا ہے؟
کیا میری قیادت جانتی ہے کہ یہاں لاہور میں پی ایچ ایف کے دفاتر میں اُلو کیوں بول رہے ہوتے ہیں؟ کرکٹ بورڈ اور کرکٹ کے ساتھ کھلواڑ کا تو سوال فی الحال رہنے ہی دیں۔ 

کیا میری قیادت جانتی ہے کہ قومی کھیل ہاکی کی قومی ٹیم کے قومی کپتان کا نام کیا ہے؟ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سوال نمبر پانچ: وطن عزیز کی خارجہ پالیسی ہو یا ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات کا چیلنج، کیا عالمی سطح پر بہترین ساکھ کی حامل میری اور آپ کی قیادت اس مسئلے پر بھی گفتگو کرتی دکھائی دیتی ہے؟
انڈیا، افغانستان اور ایران جیسے ہمسایوں کے ساتھ کیسے برابری کی سطح پر پُرامن تعلقات استوار رکھنے ہیں؟ کیسے ان ممالک کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کرنا ہے؟ کشمیر پر مودی کی یلغار کا حل کیسے نکلے گا؟
افغانستان سے دہشت گردوں کی شکایت ہے، دنیا بھر کی نظریں یہاں کی امارت پر ہیں، پاکستان کیسے دہشت گردی کے ناسور سے نمٹ سکتا ہے؟ سیاستدان کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ قوم کو اس بابت کیسے اعتماد میں لیا جائے؟ کیا کبھی ان سلگتے سوالوں پر بھی ہماری گوہر نایاب قیادت تدبر اور حکمت کیساتھ لب کشائی کرتی دکھائی دیتی ہے؟

شیئر: