Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا لاہور ہائی کورٹ کے جج شاہد جمیل نے استعفیٰ دباؤ کی وجہ سے دیا؟

’جسٹس شاہد جمیل چاہتے تھے کہ اعلٰی عدلیہ سیاسی معاملات میں نہ پڑے‘ (فائل فوٹو وِکی پیڈیا)
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد جمیل نے جمعے کے روز اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ صدر مملکت کے نام اپنے استعفے میں انہوں نے لکھا کہ ’میں ذاتی وجوہات کی بنا پر استعفیٰ دے رہا ہوں۔‘
اپنے استعفے میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے لیے اس عہدے پر کام کرنا بے انتہا عزت کی بات تھی، تاہم کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر میں نے صفحہ بدلنے اور نئے سفر کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے۔‘
ان کے اس استعفے کو پاکستانی میڈیا میں ایک بڑی خبر کے طور پر نشر کیا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ حال ہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی اپنے عہدوں سے استعفے دیے ہیں۔ 
جسٹس نقوی کے خلاف سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل میں کرپشن کے الزامات کے تحت ریفرنس زیرسماعت ہے، تاہم جسٹس اعجاز الاحسن بظاہر ان کے طرف دار دکھائی دیتے تھے۔ جسٹس نقوی کے بعد وہ بھی ’ذاتی وجوہات‘ کی بنا پر استعفی دے گئے۔
سپریم کورٹ کے دو ججوں کے استعفوں کے بعد یہ خبر گرم تھی کہ اعلٰی عدلیہ سے مزید استعفے بھی آئیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جمعے کے روز لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد جمیل کے استعفے پر ہر طرف سے بات کی جا رہی ہے۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جسٹس شاہد جمیل کا استعفیٰ بھی پہلے دو استعفوں کا تسلسل ہے یا اس کے محرکات کچھ اور ہیں؟
اس بات کو سمجھنے کے لیے خود جسٹس شاہد جمیل کے استعفے کا متن اگر ملاحظہ کیا جائے تو اس میں نئی شروعات کے بعد انہوں نے ایک انگریزی محاورے کا استعمال کیا جس کا اردو ترجمہ ہے ’پرمغز خاموشی، بعد ازاں مذاق کا منبع بننے سے بہتر ہے۔‘
صرف یہی نہیں انہوں نے اس محاورے کے بعد اقبال کی ایک نظم بھی اپنے استعفے کا حصہ بنائی ہے۔ اس کا تشریح کچھ یوں ہے کہ ایک آزاد شخص کا ایک لمحہ محکوم کے ایک سال کے برابر ہے۔ آزاد ایک لمحے میں وہ کچھ کر جاتا ہے جو غلام برسوں میں نہیں کر پاتا۔
اقبال کی اس نظم کے دیگر اشعار سے بھی کچھ ایسے اشارے ملتے ہیں جس سے عندیہ ملتا ہے کہ جج صاحب نے اشاروں کنایوں میں استعفیٰ دینے کی ’اصل‘ وجوہات بیان کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

جسٹس شاہد جمیل کی ریٹائرمنٹ 2029 میں ہونا تھی، تاہم انہوں نے قبل از وقت استعفیٰ دے دیا (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

یاد رہے کہ جسٹس شاہد جمیل نے 22 مارچ 2014 کو بطور لاہور ہائی کورٹ کے جج کے حلف اٹھایا تھا۔ وہ تقریباً دس سال اپنے اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کی ریٹائرمنٹ 2029 میں ہونا تھی۔ تاہم اپنی ریٹائرمنٹ سے پانچ سال قبل ہی وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے۔
اردو نیوز نے ان عوامل کو جاننے کی کوشش کی ہے جو بظاہر جسٹس شاہد جمیل کے استعفے کا موجب ہوسکتے ہیں۔ جسٹس شاہد کا کیریئر ایک کارپوریٹ وکیل کے طور پر شروع ہوا۔ 
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کا جج بننے کے بعد بھی ان کے پاس ایسے ہی مقدمے لگائے جاتے جو کاروباری معاملات یا بینکنگ سیکٹر سے متعلق تھے۔
لاہور ہائی کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق گذشتہ چند ماہ سے ان کے پاس ایسے مقدمے لگائے جا رہے تھے جو کہ خاندانی جھگڑوں اور اس طرح کے معاملات سے متعلق تھے جس سے وہ بظاہر خوش نہیں تھے۔ 
جسٹس شاہد جمیل کے ایک دوست وکیل میاں داؤد نے بتایا کہ ’گذشتہ چھ ماہ سے جسٹس شاہد وہ کام نہیں کر رہے تھے جس میں ان کو ملکہ حاصل ہے۔ وہ اس سے ناخوش تھے۔ ان کا لاہور ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ سے باہر تبادلہ کر دیا گیا تھا۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’وہ ایک ماہ قبل ہی استعفیٰ دینا چاہتے تھے، تاہم کچھ دوستوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ چُھٹی پر چلے گئے، بعد ازاں انہوں نے اپنی چُھٹی مزید بڑھا لی اور اب اچانک ہم نے ان کے استعفے کی خبر سنی ہے۔‘

جسٹس شاہد خاندانی جھگڑوں اور اس طرح کے ملنے والے دیگر مقدمات سے خوش نہیں تھے (فائل فوٹو: پِکس ہیئر)

جسٹس شاہد جمیل کا نام اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جب چوہدری پرویز الٰہی کے قریبی ساتھی محمد خان بھٹی کی دوران حراست ایک ویڈیو منظرعام پر آئی جس میں وہ اعلٰی عدلیہ کے ججوں بشمول مظاہر علی اکبر نقوی اور اعجاز الاحسن پر کرپشن کے الزام لگاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ 
اسی ویڈیو میں انہوں نے جسٹس شاہد جمیل کا نام صرف اس حیثیت میں لیا کہ وہ ان کے قریبی جاننے والے ہیں اور دونوں کے بچے ایک ہی سکول میں پڑھتے ہیں، تاہم ان کی اس ویڈیو میں جسٹس شاہد پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا تھا۔
میاں داؤد کہتے ہیں کہ ’جسٹس شاہد اس ویڈیو کے منظرعام پر آنے پر خاصے رنجیدہ تھے۔ ایک ملزم ان کا نام الزام لگائے بغیر لے رہا تھا۔ وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں تھا وہ چاہتے تھے کہ اس بات کی تحقیقات ہوں۔‘
’ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی، بعد ازاں وہ اپنی مرضی کا کام کرنے سے بھی عاجز نظر آئے اور بالآخر انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ ہائی کورٹ کی ساکھ کے بارے میں بڑے فکرمند تھے۔‘
میاں داؤد کے مطابق ’وہ چاہتے تھے کہ اعلٰی عدلیہ سیاسی معاملات میں نہ پڑے۔ ان کا نام بھی اسی سیاسی لڑائی کی زد میں آیا حالانکہ انہوں نے نہ ہی کبھی کسی سیاسی کیس کی سماعت کی اور نہ وہ اس کی خواہش رکھتے تھے۔‘ 
’محمد خان بھٹی کے منہ پر نام آنا ہی ان کے لئے بڑا مسئلہ بن گیا تھا۔ وہ لاہور ہائی کورٹ کا یہ تاثر بھی زائل کرنا چاہتے تھے کہ ایک سیاسی جماعت اور اس کے لیڈر کو جس طریقے فائدہ پہنچایا گیا۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’سادہ لفظوں میں وہ ہاتھیوں کی لڑائی میں آگئے تھے۔ ان کا کسی معاملے میں کوئی لینا دینا نہ تھا۔ اب ایک سیاسی جماعت اس استعفے کو کوئی اور رنگ دے رہی ہے۔‘

شیئر: