جارحیت کی گئی تو ’سخت جواب‘ دیا جائے گا، ایرانی صدر
عراق اور شام میں امریکا کے بالترتیب 25 سو اور 9 سو فوجی موجود ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ان کا ملک جنگ کا آغاز نہیں کرے گا لیکن اگر کسی نے دھمکانے کی کوشش کی تو ’سخت جواب‘ دیا جائے گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایرانی صدر رئیسی کا یہ بیان ان افواہوں کے چند روز بعد دیا گیا ہے جب یہ کہا جا رہا تھا کہ امریکا اردن میں ایرانی حمایت یافتہ گروہ کی جانب سے گذشتہ ہفتے کے روز فوجی اڈے پر ہونے والے حملے میں تین امریکی فوجی کی ہلاکت پر کیسا ردعمل ظاہر کرے گا۔
سی بی ایس نیوز نے مختلف امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے جمعرات کے روز کہا کہ ’امریکا نے عراق اور شام میں متعدد اہداف، جن میں ایرانی فوج اور تنصیبات شامل ہیں، ان پر کئی دنوں تک جاری رہنے والے حملے کرنے کی اجازت دے دی ہے۔‘
ایرانی صدر رئیسی نے جمعے کے روز اپنی ٹیلی ویژن تقریر میں کہا کہ ’ہم کوئی جنگ شروع نہیں کریں گے لیکن اگر کسی نے جارحیت کی تو ہم سخت جواب دیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وہ (امریکی) قبل ازیں جب ہم سے بات چیت کرنا چاہتے تھے تو انہوں نے کہا کہ فوجی حل موجود ہے۔ وہ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا ایران پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے مزید کہا کہ ’اسلامی جمہوریہ کی خطے میں عسکری طاقت کسی بھی ملک کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ اس کے بجائے یہ سکیورٹی کی یقین دہانی کرواتی ہے جس پر خطے کے ممالک انحصار اور اعتماد کر سکتے ہیں۔‘
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے چار امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکا نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ ڈرون حملہ جس میں اس کے تین فوجی ہلاک اور 40 دیگر لوگ زخمی ہوئے تھے، وہ ایران نے کیا تھا۔
ذرائع نے یہ بھی کہا کہ ایران کی اہم ترین فورس پاسداران انقلاب شام سے اپنے سینیئر حکام کا انخلا عمل میں لا رہی ہے۔
ایران، عراق اور شام دونوں ملکوں میں مسلح گروہوں کی معاونت کرتا ہے جہاں امریکا کے بالترتیب 25 سو اور 9 سو فوجی موجود ہیں۔