ایک دہائی قبل شام میں جاری جنگ میں صدر بشارالاسد کی مدد کے لیے پہنچنے کے بعد ایرانی پاسداران انقلاب کو زیادہ نقصان شام میں پہنچا ہے۔
شام میں ہونے والے اسرائیلی حملوں میں دسمبر سے اب تک پاسداران انقلاب کے نصف درجن سے زائد ارکان ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں انٹیلیجنس کے جنرل شامل ہیں۔
شام میں موجود تین مختلف ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ تہران میں سخت موقف رکھنے والے افراد ان حملوں کی جوابی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران کے سینیئر افسران کو شام سے نکالنے کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں براہ راست تنازعات کی وجہ سے جزوی طور پر ہوا ہے جب کہ ایران کا شام چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
یہ فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ فلسطینی گروپ حماس کے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے نتائج مشرق وسطی میں کیسے سامنے آ رہے ہیں۔
دوسری طرف ایران جو حماس کا حامی ہے خود بھی اس تنازع سے دور رہنے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ وہ لبنان، یمن، عراق اور شام سے میدان میں آنے والے گروہوں کی حمایت کرتا ہے۔
ذرائع میں سے ایک نے بتایا ہے کہ تہران کی طرف سے علاقائی سینیئر سکیورٹی اہلکار نے کہا ہے کہ سینیئر ایرانی کمانڈر درجنوں افسران کے ساتھ شام چھوڑ چکے ہیں۔
ذرائع نے یہ نہیں بتایا کہ کتنے ایرانی افسر وہاں سے چلے گئے تھے جب کہ روئٹرز آزادانہ طور پر ان کی تعداد کا تعین کرنے سے قاصر ہے۔
مزید برآں روئٹرز تبصرے کے لیے پاسداران انقلاب تک رسائی حاصل نہیں کر سکا اور شام کی وزارت اطلاعات نے اس سے متعلق ای میل کیے گئے سوالات کے جواب نہیں دیے۔
قبل ازیں جنگ کے دنوں میں ایران نے ہزاروں جنگجو شام بھیجے ہیں، ان میں پاسداران انقلاب کے ارکان شامل ہیں جو سرکاری طور پر مشیروں کے کردار میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
تین ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ گارڈز شام میں اتحادی گروپ حزب اللہ کی مدد سے کارروائیاں کریں گے تاہم لبنانی گروپ حزب اللہ نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا۔
بتایا گیا ہے کہ ایرانی ملیشیا شام نہیں چھوڑیں گے لیکن انہوں نے اپنی موجودگی اور نقل و حرکت انتہائی حد تک کم کر دی ہے۔
غزہ اسرائیل جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل نے شام میں ایران کی موجودگی روکنے کے لیے برسوں پر محیط فضائی حملے تیز کر دیے ہیں۔
اسرائیل شام میں کیے جانے والے حملوں پر شاذ و نادر ہی تبصرہ کرتا ہے اور اس کی جانب سے حالیہ حملوں کی ذمہ داری کا اعلان بھی نہیں کیا گیا۔
اسرائیلی فوج نے روئٹرز کے سوالات کے جواب میں کہا ہے کہ غیرملکی میڈیا رپورٹس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جائے گا۔