اجرا میں غیرمعمولی تاخیر، نتائج ناقابل اعتبار ہو گئے؟
اجرا میں غیرمعمولی تاخیر، نتائج ناقابل اعتبار ہو گئے؟
جمعہ 9 فروری 2024 12:19
خرم شہزاد، اردو نیوز۔ اسلام آباد
آٹھ فروری کو ہونے والے پاکستان کے 12ویں عام انتخابات کے نتائج میں غیرمعمولی تاخیر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا لگا دیے ہیں اور نہ صرف سیاسی جماعتیں، امیدواران بلکہ عام لوگ بھی اس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ملک بھر میں پولنگ جمعرات شام پانچ بجے ختم ہو گئی تھی لیکن 20 گھنٹے گزرنے کے باوجود انتخابات کے اگلے روز دن ایک بجے تک الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کے کل 266 حلقوں میں سے صرف 70 نشستوں کا اعلان کر سکا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن گزشتہ روز پولنگ کے اختتام کے بعد گنتی اور نتائج کی ترسیل کے عمل میں تاخیر کی کوئی وضاحت بھی پیش نہیں کر سکا اور جمعرات کی شب جب پورے ملک میں نتائج کا انتظار ہو رہا تھا تو چیف الیکشن کمشنر 11 بجے کے قریب اس وقت اپنا دفتر چھوڑ کر کہیں چلے گئے جب بڑی تعداد میں میڈیا اراکین الیکشن کمیشن کے ہیڈ کوارٹر میں پہلے نتیجے کے اعلان کا انتظار کر رہے تھے۔
بعد ازاں علی الصبح جب پہلے نتیجے کا اعلان کیا گیا تو اس وقت بھی خلاف روایت چیف الیکشن کمشنر کی بجائے الیکشن کمیشن کے سپیشل سیکرٹری نے اس کا اعلان کیا۔
جب ان سے صحافیوں نے الیکشن نتائج میں تاخیر کی وجہ پوچھی تو وہ کوئی واضح وضاحت پیش نہ کر سکے اور صرف اتنا کہا کہ ’انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے نتائج میں تاخیر ہوئی۔‘
الیکشن کمیشن کا یہ بیان حیرت انگیز تھا کیونکہ انتخابات سے کچھ ہی دن پہلے جب چیف الیکشن کمشنر سے پوچھا گیا تھا کہ انٹرنیٹ بند ہونے سے ان کا رزلٹ میینیجمنٹ سسٹم متاثر تو نہیں ہو گا تو ان کا کہنا تھا کہ ’انٹرنیٹ سے ان کے رزلٹ مینیجمنٹ سسٹم کا کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ انٹرنیٹ کے بغیر بھی کام کرتا رہے گا۔‘
ان نقائص کے باوجود پچھلی رات الیکشن کمیشن نے تمام ریٹرننگ آفیسرز کو وارننگ دی کہ آدھے گھنٹے کے اندر نتائج جاری کیے جائیں لیکن ایسا نہ کرنے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔
مبصرین کے مطابق نتائج میں اتنی تاخیر اور الیکشن کمیشن کی خراب کارکردگی نے ان کی درستگی کے متعلق بھی سوال اٹھا دیے ہیں اور 10 بجے کے بعد موصول ہونے والے نتائج قابل اعتبار نہیں رہے۔
پچھلی کئی دہائیوں سے انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والے سیاسی تجزیہ کار سرور باری کا کہنا ہے کہ 2024 کے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی گزشتہ انتخابات کے تناسب سے بہت بری ہے۔
’انہوں نے کروڑوں روپے خرچ کر کے ای ایم ایس بنایا اور وہ ناکام ہو گیا، ان کی ایس ایم ایس سروس بھی ناکام ہو گئی۔ اب وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے ہوا۔‘
سرور باری کے مطابق الیکشن کمیشن کی ناکامی نے انتخابات کے نتائج پر سنجیدہ سوال اٹھائے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ گھنٹے پہلے نواز شریف ایک لاکھ سات ہزار ووٹ لے رہے تھے۔ بعد میں جو نتیجہ آیا اس میں ان کے ووٹ ایک لاکھ 71 ہزار ہو گئے، ایسا کیسے ممکن ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ مسلسل تیسرا الیکشن ہے جس کے نتائج کے بعد الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہا ہے۔
اب سیاستدانوں کو سوچنا چاہیے اور اس مسئلے پر متفق ہو کر ایک ایسا الیکشن کمیشن تشکیل دینا چاہیے جو اس طرح کی قباحتوں سے مبرا ہو۔
ان کے بقول ’چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کا انتخاب بھی اپوزیشن اور حکومت کے ملاپ سے نہیں بلکہ شفاف طریقے سے کھلی سماعت کے ذریعے ہونا چاہیے۔‘