مریم نواز اور پنجاب، ن لیگ کا آخری چانس: اجمل جامی کا کالم
مریم نواز اور پنجاب، ن لیگ کا آخری چانس: اجمل جامی کا کالم
منگل 27 فروری 2024 16:25
اجمل جامی -صحافی و تجزیہ نگار
سوشل میڈیا کے اس دور میں ’آپٹیکس‘ کی اہمیت انتہائی لازم ہو چکی(فائل فوٹو: سکرین گریب)
دھاندلی کے شور میں سرکار بن چکی، قابل ستائش ہے کہ پنجاب کی 200 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون تخت لاہور کی حکمرانی سنبھال رہی ہیں۔
مریم نواز شریف کے لیے لیکن یہ ایک انتہائی دشوار راہ ہو گی۔ باپ اور چچا کے طرزِ حکمرانی کا نقش بھی رقم ہے اور ساتھ مشکل ترین اپوزیشن کے ساتھ ان گنت چیلنجز کا سامنا۔
پنجاب جو کبھی ن لیگ کا گڑھ کہلاتا تھا، اب سیاسی رویے بدل چکا، تحریک انصاف کی وجہ سے صوبے پر لیگی چھاپ اور گرفت ڈھیلی پڑ چکی، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ بند مٹھی سے ریت مسلسل سرکتی جا رہی ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ ایسے میں مریم نواز کیا چمتکار کر سکتی ہیں کہ ن لیگ کی ساکھ بحال ہو اور کپتان کی مقبولیت سے سرشار نوجوان طبقے کو اپنی جانب راغب کر پائیں؟ یہ مریم سرکار کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔
کیونکہ محض ترقیاتی کام، سڑکوں کی تعمیر، میگا پراجیکٹس، آئی ٹی شہر اور دیگر اعلان کردہ منصوبہ جات نئی نسل کو فوری متوجہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں اس سب کے ساتھ ساتھ ’آپٹیکس‘ کی اہمیت انتہائی لازم ہو چکی۔
کارکردگی بلاشبہ خود بولتی ہے، دیرپا ہوتی ہے لیکن کیا کیجیے کہ جذباتی پن کے ہاں یہ عدسے نقش جمانے میں کچھ وقت لیتے ہیں۔
وزیراعلیٰ کے چناؤ کا دن ہی دیکھ لیجیے، لمبی چوڑی تقریر ہوئی، اغراض و مقاصد بیان کیے گئے، پالیسی بیان جاری ہوا، تقریباً تمام تر شعبہ جات کی جانب اپنے منصوبوں کا ذکر ہوا مگر چند سیکنڈ کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا کی چرچا میں سرفہرست رہا۔
وہی کلپ جس میں عظمیٰ کاردار حلوہ پوری کھاتے جب اپنی وزیراعلیٰ کی جانب لپکیں تو انہوں نے کاردار کا ہاتھ جھٹک دیا۔ کاردار بعد ازاں بہتیری وضاحت کرتی رہیں لیکن ’آپٹیکس‘ نے کچھ اور ہی پیغام دیا کیونکہ اسی دن وہی مریم نواز اپنے چچا سے بھی گلے مل کر شفقت وصول فرما رہی تھیں۔
تقریر اور پالیسی پر چرچا ادھوری رہ گئی اور ’آپٹیکس‘ کی گیم میں یہی چند سیکنڈ مسلسل سوشل میڈیا پر زیر بحث رہے۔
اگلے روز صبح سویرے اٹھیں، وقت سے پہلے آفس پہنچیں، اعلان کیا کہ آئندہ ان کے لیے ٹریفک بند نہ کی جائے۔ عمدہ اعلان ہے، قابل ستائش ہے۔ لیکن یہ اعلان اپنی جگہ رہ گیا اور چند سیکنڈ کی ایک اور فوٹیج موضوع بحث بن گئی، وہی فوٹیج جس میں محترمہ عملے کے ہمراہ آ رہی ہیں کہ اچانک ان کا سٹاف ایک صحافی کے موبائل کیمرے کو جھٹک دیتا ہے۔
وضاحت جو بھی ہو، مدعا جو بھی ہو لیکن ہمارے مزاج ’آپٹیکس‘ سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ اس کا پاس نہ رہا تو پھر قابل ستائش اقدامات بھی ہوا ہوتے رہیں گے۔
بہرحال اب آ جاتے ہیں مستقبل کے منظرنامے کی جانب، خاکسار کی اطلاع ہے کہ یہاں پنجاب میں نئی سرکار کے آتے ہی اب کے بار بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ نہیں ہو گی۔
یہ وہی بیورورکریسی ہے جس نے نگراں سرکار کے ساتھ کام کر رکھا ہے۔ اسی نظام کو چونکہ ریاستی آشیرباد بھی حاصل ہے لہٰذا بڑے پیمانے پر رد و بدل مقصود نہیں ہو گا۔ اصل چیلنج گرتی ساکھ بحال کرنا اور کپتان کی مقبولیت کا توڑ ہے۔
اس کے لیے پہلا برس ہی انتہائی اہم اور فیصلہ کن ہو گا کیونکہ نواز شریف صاحب اب نڈھال ہو چکے، غم زدہ رہے ہیں، بیٹی کو وزیراعلیٰ دیکھ کر روحانی تسکین ضرور ملی لیکن اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اس سب کے باوجود وہ رائیونڈ بیٹھ کر بیٹی کے لیے ایک مسلسل سپورٹ آن رکھے ہوئے ہوں گے۔
اس طرح سیاست میں فعال نہیں رہے جیسے ہوا کرتے تھے۔ شہباز وفاق میں مصروف ہوں گے، حمزہ بھی ظاہر ہے وہیں کہیں کھپائے جائیں گے تو ایسے میں پنجاب کی گورننس سے لے کر پنجاب کی انتخابی سیاست تک جیسے اہم امور اب مریم کے سپرد ہوں گے۔
دونوں اہم محاذوں پر وہ کیسے نقش جمائیں گی، یہ اہم ترین چیلنج ہو گا۔ کیونکہ محترمہ جانتی ہیں کہ اب ن لیگ کے پاس شاید یہ آخری چانس ہے وگرنہ حالات و واقعات اور عوامی نبض یہ پیغام دیتی ہے کہ پنجاب کا سیاسی مزاج بدل چکا ہے۔
رہی بات جیل بیٹھے کپتان کی، تو وہ شاید کہیں اکیلے میں مسکرا رہے ہوں گے جبھی تو انہوں نے صدر علوی کو واضح پیغام بھیج دیا کہ وہ سزاؤں کی معافی نہیں چاہتے۔ جبھی تو انہوں نے آئی ایم ایف سے لے کر گنڈاپور تک ایسے فیصلے کیے۔
ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں۔ تنقید اپنی جگہ لیکن بیک فٹ پر جانا ان کا مزاج ہی نہیں رہا۔ مفاہمت کا کوئی پیغام تاحال ان کی جانب سے عملی طور پر دیکھنے کو نہیں ملا۔ ایسی کوئی گنجائش ہوتی تو پی پی پی کی کوشش کامیاب ہوچکی ہوتی۔
زمان پارک میں قیام تھا تو بے تاب تھے کہ وہ رابطہ ہی نہیں کرتے۔ وہ بات ہی نہیں کر رہے۔ وہ بات کریں تو ناں۔ مگر اب وہ بے تاب نہیں۔ اب وہ منتظر ہیں۔ پہلے وہ سندیس بھیجا کرتے تھے، اب سندیس کے منتظر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب انہیں ان کے پاس آنا ہو گا۔
بس!یہیں سے وہ ریس شروع ہوتی ہے جس کا ذکر گاہے گاہے دبے لفظوں میں لکھاری کرتا آیا ہے۔ ریاست ہو یا ن لیگ، دونوں اس خیال یا خواہش کو رد کر کے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ نیا نقش جمانا چاہتے ہیں، نئی گیم لگانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ’آپٹیکس‘ اور پریم بھری توجہ حاصل کرنے کی باسکٹ میں ان کے ہاں تاحال تک اشیاء ضررویہ کی اشد کمی پائی جاتی ہے۔