Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چھ ججز کے خط پر سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت

چیف  جسٹس قاضی فائز عیٰسی سات رکنی لارجربینچ کی سربراہی کریں گے (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط پر از خود نوٹس پر سماعت آج ہو گی۔
چیف جسٹس نے عدالتی امور میں مداخلت، اہل خانہ، رشتہ داروں اور دوستوں کے ذریعے دباؤ ڈالنے اور مختلف طریقوں سے اثرانداز ہونے کے ایجنسیوں پر الزامات پر مبنی خط کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
سماعت سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں سپریم کورٹ کے اسلام آباد میں دستیاب تمام ججوں پر مشتمل لارجر بینچ کرے گا۔ 
لارجربینچ میں سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ سمیت جسٹس یحیٰی آفریدی ، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس اطہر من اللہ ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
اس معاملے پر مختلف وکلاء اور لاہور ہائی کورٹ بار نے بھی آئینی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے پی ٹی آئی کے سینیئر وکیل حامد خان نے درخواست دائر کی ہے جس میں حکومت کے انکوائری کمیشن کو غیر آئینی قرار دینے، الزامات کی انکوائری کے لیے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنانے اور مداخلت کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
سینیئر وکیل اعتزاز احسن کی جانب سے دائر آئینی درخواست میں میمو کمیشن کی طرز پر جوڈیشل کمیشن بنانےکی استدعا کی گئی ہے۔ میاں داؤد ایڈووکیٹ نے بھی درخواست میں بھی جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی ہے۔
26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا جس میں عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا الزام عائد کیا تھا، ججز نے اس معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی مانگی تھی۔
ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا گیا خط سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر ججز کو اپنے گھر بلا کر اعتماد میں لیا تھا۔
چیف جسٹس نے ججز کو درپیش شکایات سننے کے بعد انہیں حل کرنے اور ان کے خدشات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

اسی سلسلے میں چیف جسٹس نے مسلسل دو روز فل کورٹ اجلاس بھی منعقد کیا تھا جبکہ چیف جسٹس نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات بھی کی تھی جس دوران انکوائری کمیشن بنانے کا فیصلہ ہوا تھا۔
چیف جسٹس اور شہباز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات کے نتیجے میں وفاقی حکومت نے ہفتے کے روز جسٹس تصدق جیلانی کی سربراہی میں ایک رکنی انکوائری کمیشن بھی تشکیل دے دیا تھا۔
پاکستان بار کونسل اور وگر کونسل کی جانب سے انکوائری کمیشن کا خیر مقدم کیے جانے کے باوجود 300 سے زائد وکلا نے چیف جسٹس کے نام خط میں معاملے پر از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کی خبر سامنے آنے کے کچھ ہی دیر بعد جسٹس تصدق جیلانی کی جانب سے کمیشن کی سربراہی سے معذرت کا خط بھی سامنے آگیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں انھوں نے اس معاملے کو جوڈیشل فورم پر حل کرنے کی تجویز دی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ وکلا نے ملک گیر وکلا کنونشن کا انعقاد بھی شروع کر دیا تھا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی حمایت میں تقاریر نعرے اور ریلیاں زور پکڑ رہی تھیں۔
اس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے بدھ کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا تھا۔
تحریک انصاف کی جانب سے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کا خیر مقدم کیا گیا تھا۔ اُردو نیوز سے گفتگو میں قومی اسمبلی میں نامزد قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا تھا کہ ’از خود نوٹس لینا اچھی بات ہے لیکن معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے اور عدالتی امور میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔‘ 
تاہم اس کے چند گھنٹوں بعد رات گئے ایک ٹویٹ میں تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے سات رکنی لارجر بینچ کو مسترد کر دیا۔
رؤف حسن نے ایکس پر لکھا کہ ’پسندیدہ سات ججوں پر مشتمل سات رکنی بینچ قبول نہیں۔ ہم چیف جسٹس کے بغیر فل کورٹ چاہتے ہیں اور انصاف کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ ہم انصاف کے حصول کے لیے پرعزم ہیں۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو مشکوک خطوط موصول

اس سلسلے میں منگل کے روز ایک اور اہم پیش رفت بھی دیکھنے میں آئی جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام آٹھ ججوں کو مشکوک لفافے بذریعہ ڈاک موصول ہوئے ہیں۔ عملے کی جانب سے لفافہ کھولنے پر اس میں مشکوک پاؤڈر بھی برآمد ہوا۔

 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی سکیورٹی کو فوری طور پر طلب کیا اور پولیس کو دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
بعد ازاں اس معاملے کا مقدمہ دہشت گردی دفعات کے تحت تھانہ سی ٹی ڈی اسلام آباد میں درج کر لیا گیا۔
مقدمہ ہائی کورٹ کی آر اینڈ آئی برانچ کے ڈیوٹی کلرک کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ تمام خطوط ریشم نامی خاتون کی جانب سے موصول ہوئے تھے۔ مقدمے کے متن کے مطابق تمام ڈاک روٹین کے مطابق ججز کے کی پی ایس صاحابان کو موصول کروائی گئی۔
تھوڑی فیر بعد اطلاع ملی کہ ڈاک میں کیمکل نما پاوڈر ملا ہے جس کے فوری بعد دیگر پی ایس صاحابان کو اطلاع دی کہ ڈاک نہ کھولا جائے۔
عدالتی ذرائع نے بتایا کہ سٹاف نے خط کھولا تو اس کے اندر سفوف تھا اور خط کھولنے کے بعد آنکھوں میں جلن شروع ہو گئی۔ متاثرہ اہلکار نے فوری طور پر سینیٹائزر استعمال کیا اور منہ ہاتھ دھویا، خط میں موجود متن پر لفظ ’اینتھراکس‘ لکھا تھا۔

شیئر: