خسارے میں چلنے والی پی آئی اے کی نجکاری کا عمل جون تک مکمل ہو پائے گا؟
خسارے میں چلنے والی پی آئی اے کی نجکاری کا عمل جون تک مکمل ہو پائے گا؟
جمعہ 5 اپریل 2024 16:07
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے ایک بیان میں کہا کہ پی آئی اے سی ایل سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش موقع ہے۔ (فوٹو: فیس بک علیم خان)
موجودہ حکومت قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری کے مراحل کو جلد مکمل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ ابتدائی پلان کے مطابق حکومت رواں مالی سال تک پی آئی اے کی نجکاری مکمل کرنا چاہتی ہے۔
پی آئی اے کو سنہ 2016 میں نجکاری کی فہرست میں ڈالا گیا تھا۔ تاہم ماضی کی حکومتیں قومی ایئرلائن کی نجکاری کے عمل کو مکمل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
پی آئی اے کی نجکاری میں اب تک کی تازہ پیشرفت کے مطابق نجکاری کمیشن نے پی آئی اے کی خریداری کی خواہاں کمپنیوں کی اہلیت، بولی کے لیے زر بیعانہ اور اظہار دلچسپی کی درخواستوں کی جانچ پڑتال کے لیے پری کوالیفکیشن کمیٹی کی منظوری دے دی ہے۔
نجکاری کمیشن بورڈ کے ترجمان احسن اسحاق کے مطابق وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان کی زیرِصدارت بورڈ اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے اہلیت کے معیار کی منظوری دی گئی ہے۔ اس کے تحت بولی دہندہ کی مالیت کم از کم 30 ارب روپے ہونا قرار دی گئی ہے۔
کنسورشیم ہونے کی صورت میں کنسورشیم کی مجموعی مالیت 30 ارب روپے (10 کروڑ ڈالر) ہونی چاہیے جبکہ لیڈ بولی دہندہ کی مالیت آٹھ ارب روپے (دو کروڑ 50 لاکھ ڈالر) ہونا لازم قرار دیا گیا ہے۔
بولی لگانے والے کنسورشیم کو یہ بھی ظاہر کرنا ہو گا کہ ان کی غیرملکی ایئرلائن انٹرپرائز کے طور پر مجموعی سالانہ آمدن 200 ارب روپے (70 کروڑ ڈالر) ہے۔
نجکاری کمیشن کے ترجمان نے کہا ہے کہ پی آئی اے کے 51 فیصد حصص کی نیلامی کے لیے بولیاں طلب کر لی گئی ہیں جبکہ کوالیفکیشن سٹیٹمنٹ جمع کرانے کی آخری تاریخ تین مئی مقرر کی گئی ہے۔
اس وقت حکومت کے پاس پی آئی اے کے 96 فیصد حصص موجود ہیں تاہم حکومت رواں سال جون تک پی آئی اے کو فروخت کرنا چاہتی ہے۔
پی آئی اے کی بیلنس شیٹ کلیئر
قومی ایئرلائن کی نجکاری کے معاملے پر ایک اور اہم پیشرفت میں ادارے کے تمام خسارے، واجبات اور قرضے ہولڈنگ کمپنی کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔
نجکاری کمیشن کے اعلٰی حکام کے مطابق پاکستان سٹاک ایکسچینج کو پی آئی اے کی کلیئر بیلنس شیٹ سے متعلق آگاہ کر دیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کو ایئرلائن کا قرض 830 ارب روپے ٹرانسفر کر دیا گیا جبکہ پی آئی اے کارپوریشن لمیٹڈ کے ذمے 202 ارب روپے کا قرض ہو گا۔ بینکوں سے آپریشنز کے لیے 167 ارب روپے اورملازمین کے 35 ارب روپے کا قرض ادا کرنا ہو گا۔
وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان نے پی آئی اے کے ذمے قرض ختم ہونے کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پی آئی اے سی ایل سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش موقع ہے۔ کمپنی کی بڑی ذمہ داریاں اس کی بیلنس شیٹ سے ہٹا دی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تاجر برادری بھی اس موقع کو جوش و خروش سے دیکھے گی۔ امید ہے پاکستانی تاجر برادری بھی اپنی دلچسپی ظاہر کرے گی۔
پی آئی اے کا خسارہ کتنا ہے؟
قومی ایئرلائن اس وقت تاریخ کے بلند ترین خسارے پر کھڑی ہے۔ پی آئی اے کے ذمے 600 سے 625 ارب روپے کا مجموعی قرضہ ہے۔
پی آئی اے کی سالانہ رپورٹ 2022 کے مطابق ادارے کا سالانہ خسارہ 88 ارب تھا جس میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
پی آئی اے کے سال 2023 کے پہلے چھ ماہ کے مالیاتی نتائج کے مطابق قومی ایئرلائن کا ابتدائی چھ مہینوں کا خسارہ 60 ارب تھا۔ تاہم گذشتہ برس کے مکمل مالیاتی نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا۔
24 جون تک نجکاری مکمل ہونے کا امکان
خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری پر کام کرنے ادارے وفاقی نجکاری کمیشن کے مطابق 24 جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل ہونے کا امکان ہے۔
حکام کے مطابق آئی ایم ایف نے پی آئی اے کی نجکاری کا عمل رواں مالی سال میں ہی مکمل کرنے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ حکومت مقررہ مدت کے دوران ہی نجکاری کا عمل مکمل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔
اس حوالے سے ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ خان کا کہنا تھا کہ ’پی آئی اے نجکاری کے مراحل مقرر کردہ ٹائم لائن سے گزر رہے ہیں۔ اگر مزید کسی تاخیر کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تو نجکاری اپنے مقررہ وقت پر مکمل ہو سکتی ہے۔‘
اُنہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل نجکاری کمیشن دیکھ رہا ہے۔ پی آئی اے کے موجودہ منتظمین نجکاری کمیشن کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔‘
نجکاری کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2023 میں پی آئی اے میں دو کروڑ سے زائد مسافروں نے سفر کیا ہے۔ قومی ایئرلائن سالانہ اوسطاً 50 لاکھ سے زائد مسافروں کو 34 ممالک لے کر جاتی ہے۔
نجکاری کمیشن کا مزید کہنا ہے کہ پی آئی اے کے پاس 97 منافع بخش انٹرنیشنل روٹ ہیں۔ ایک ہفتے میں پی آئی اے 260 پروازیں آپریٹ کرتی ہیں۔
نجکاری کمیشن نے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان میں فضائی سفر کرنے والوں میں 5.5 فیصد کا سالانہ اضافہ ہوتا ہے۔
پی آئی اے کے سابق چیئرمین عرفان الٰہی نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’یہ قومی ایئرلائن کی نجکاری کے طریقہ کار پر منحصر ہے کہ نجکاری کا عمل کتنے عرصہ میں مکمل ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت اگر پی آئی اے کے خریدار اور اپنے مفادات کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ نجکاری کامیاب تصور کی جائے گی۔‘
عرفان الٰہی کے مطابق کامیاب نجکاری میں پی آئی اے ملازمین اور ہیومن ریسورس کے تمام انٹرسٹس کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔
ماضی میں پی آئی اے کی نجکاری مکمل نہ ہونے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’جب وہ قومی ایئرلائن کے سربراہ تھے تو اُس وقت ہمیں قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‘
’حکومت پہلے پی آئی اے کی مکمل نجکاری چاہتی تھی مگر پھر اس ضمن میں ایک قانون منظور ہوا کہ جس کے بعد اب پی آئی اے کے 51 فیصد شیئرز فروخت کیے جا سکیں گے۔ اب حکومت کے سامنے واضح ہدف ہے جس کے مطابق آگے بڑھنا ہے۔‘