زرا تصور کریں کہ سخت گرمی میں آپ سفر کر رہے ہیں، راستے میں قیام کرنا پڑا یا آپ کی منزل آن پہنچی۔ میزبان نے دسترخوان بچھایا۔ سب سے پہلے ٹھنڈی یخ نمکین گاڑھی لسی کا جگ پیش کیا گیا۔ ایک دو گلاس پینے کے بعد آپ کے ہوش ٹھکانے ہوئے تو سامنے دیکھا کہ سبز کٹی ہوئی مرچوںسے بھرے آلو کے کرسپی پراٹھے، پودینے کی چٹنی، پیازکھیرے کا سلاد، اچار جس میں آم کے ساتھ کڑاکے دار مرچ اور آدھ کٹا لیموں بھی پڑا ہے۔ لسی کے دور بھی ساتھ چل رہے ہیں۔ کیسا لگے گا؟
چلیں اس منظر کو بدلتے ہیں۔ سخت بھوک میں آپ کے سامنے ابلے سفید چاول اور ساتھ سپائسی پتلی دال کا بھرا ڈونگا آگیا، سرخ لوبیہ یعنی راجماہ کی پلیٹ بھی موجود ہے، پیاز، کھیرے، ٹماٹر کا سلاد اور ایک بار پھر خوشبودار اچار۔ سادہ مگر پرلطف تجربہ۔
اب کچھ بھرپور قسم کا نان ویج۔ فرض کریں کسی صبح آپ کے گھر پر دستک ہوئی، باہر نکلے تو دو پرانے دوست کھڑے مسکرا رہے۔ برسوں بعد ملاقات ہوئی۔ آپ نے اندر ڈرائنگ روم میں بٹھانے کے لیے دروازہ کھولا تو انہوں نے آپ کا ہاتھ کھینچ لیا اور کہا کہ نہیں ابھی ہمارے ساتھ چلو۔ آپ ٹراﺅزر، شرٹ اور چپل ہی میں چل پڑے۔ آپ کے دوست آج نہاری کا ناشتہ کرنے کی نیت کر کے آئے تھے۔ ساتھ لیے نہاری کے مشہور پوائنٹ کی طرف گئے۔
مزید پڑھیں
-
عمران خان کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 840371
-
دودھ کے پیالے میں تیرتی گلاب کی پتیاں: عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 849071
وہاں پہنچے۔ ہر ایک کے لیے الگ الگ فرائی نہاری کی پلیٹ آرڈر ہوئی، جس میں نلی بھی ڈالی جائے گی۔ چند منٹ بعد گرما گرم ترتراتے گھی والی نہاری کی پلیٹ سامنے آگئی، ساتھ ادرک، دھنیا، کتری سبز مرچ پر مشتمل ہرا مسالہ۔ دوست نے ویٹر کو تاکید کی کہ کڑک خمیری روٹی لانا۔ فوراً ہی سرخ کرسپی پھولی ہوئی خمیری روٹی آ گئی۔
نہاری کی پلیٹ پر ہرا مسالہ انڈیلا، لیموں نچوڑا، خمیری روٹی کا نوالہ توڑا اور نہایت ٹینڈر ہوئی نرم بہت اچھی طرح گلی ہوئی لال بوٹی کو چھیڑا تو وہ بکھر گئی۔
لال بوٹی، گاڑھا نہاری کا شوربہ اور گرما گرم خمیری روٹی۔ یوں لگے گا جیسے کائنات تھم گئی اور ذائقوں کی بارش ہوگئی۔ آپ کے پاس آپشن ہے کہ لائم سوڈا کا یخ بستہ گلاس ساتھ میں لیں یا گاڑھی میٹھی لسی کا ذائقہ لیں۔ دل چاہے تو بہت اچھا نرم بنا ہوا دودھ میں گندھا سپیشل شیرمال بھی ساتھ ٹرائی کریں۔ صدیوں تک نہیں تو برسوں تک یہ ذائقہ یاد رہے گا۔
لاہور میں چوبرجی کے پاس ایک بہت پرانا مشہور ہوٹل ہے، ساٹھ ستر سال پرانا۔ شاید قیام پاکستان سے بھی پہلے کا۔ وہاں کے کھانے خالص دیسی گھی میں پکے ہوتے ہیں۔ ریٹ تو زیادہ مگر ذائقہ بھی حیران کن۔ وہاں کا مٹن قورمہ اور خاص کر قورمے کا مسالہ شاندار ذائقے کا حامل۔ قیمہ بھرے کریلے ایسے کہ آدمی انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔ مٹن پلاﺅ کلاسیکل انداز میں، یخنی میں بنا، خوشبودار پلاﺅ جس میں مرچ مسالہ مناسب اور لمبے چاول کا ایک ایک دانہ الگ اور خوب پکا ہوا۔ زردہ یا گڑ والے چاول کا مزا مستزاد اور چاٹی کی نمکین لسی کی سہولت بھی موجود۔
![](/sites/default/files/pictures/April/36511/2024/images_3_0.jpg)
آٹھ دس سال پہلے نائیجریا جانے کا موقعہ ملا۔ ایک انٹرنیشنل تنظیم کے زیراہتمام وہاں پر فری آئی کیمپ لگائے جا رہے تھے۔ انہیں کور کرنے جانا ہوا۔ مصر کے راستے گئے اور چند گھنٹوں کا قیام تھا۔ ایئرپورٹ کے قریب ایک ہوٹل میں کمرہ ملا اور فری لنچ کی سہولت۔ لنچ کے لیے پہنچے تو خاصے بڑے ہال میں لمبا چوڑا بوفے، درجنوں ڈشز۔ دو تین قسم کے رائس، چکن ، ویجی ٹیبل وغیرہ، عربی سٹائل کے شوارمے، عرب بروسٹ اور ایک طرف روسٹ شدہ ٹرکی بھی پڑا تھا۔ امریکیوں کے تھینکس گِوِنگ ڈے پر ٹرکی لازمی ڈش ہوتی ہے۔
اس کا بہت تذکرہ سنا تھا، تھوڑا کھا کر دیکھا، ہمارے روسٹ سے مختلف تھا، پھیکا سا نامانوس ذائقہ۔
پھر ہمیں ایک پورا تھال چھلے چلغوزے کی گریوں کا نظر آیا۔ تب چلغوزے آج کل جیسے مہنگے نہیں تھے، مگر پھر بھی چلغوزے کی چھلی ہوئی گریاں تو کبھی نہیں ایسے دیکھی تھیں۔ آرام سے رکے اور بڑے بڑے دو تین چمچ بھر کر پلیٹ میں ڈالے۔ چلغوزے روسٹڈ تھے، مزا کمال۔ چند لمحوں بعد (جی منٹوں نہیں بلکہ لمحوں بعد ) واپس پلٹے اور ایک بار پھر پلیٹ بھر لی۔ دو تین (یا شاید پانچ سات ) بار ایسا کیا اور ایسا مزا کہ روح تک سرشار ہوگئی۔
نائیجریا میں مختلف افریقی کلچر اور مزاج کے کھانے ملے، ان کے بعض سالن ایسے پکے ہوئے جن میں ہم پاکستانیوں کو قدرے ناگوار سی مہک آئی، مقامی لوگ البتہ مزے لے کر کھا جاتے۔
ناشتے میں وہاں مزے کی چیزیں دیکھیں، لمبے سائز کے کیلے جو فرائیڈ تھے۔ ہاتھ بھر لمبے آلو کے فنگر فرائز جو دو انگلیوں جتنے موٹے مگر مزے دار۔ ایک اور مزے کی چیز آئی کیمپ میں دیکھی۔ قدونہ وہاں کی ایک مشہور ریاست ہے۔ وہاں کیمپ تھا، چائے کے لیے سنیکس لگے تو ایک تھال میں پسا ہوا پاﺅڈر سا کچھ تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ خشک گوشت ہے ،جس کی بوٹیوں کو بعد میں پیس دیا گیا۔ ہمارے سرائیکی پٹھان گھرانوں میں رواج ہے کہ قربانی کے گوشت کو نمک مرچ لگا کر دھوپ میں سکھایا جاتا ہے اور پھر ان خشک بوٹیوں کو پیس کر دیسی گھی میں بھون کر سالن بنایا جائے۔
![](/sites/default/files/pictures/April/36511/2024/images_1_0.jpg)