پاکستان اور انڈیا تناؤ بڑھانے کے بجائے مذاکرات سے معاملات حل کریں: امریکہ
میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں (اے ایف پی)
امریکہ نے انڈین وزیراعظم کے ’سرحد پار جا کر بھی دہشت گردوں کو مارنے سے گریز نہیں کریں گے‘ کے بیان پر کہا کہ پاکستان اور انڈیا تناؤ بڑھانے کے بجائے مذاکرات سے معاملات حل کریں۔
منگل کو واشنگٹن میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران جب وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے نریندر مودی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا گیا کہ یہ ایک قسم کا کینیڈا میں سکھ لیڈر کے قتل، امریکہ میں قتل کی منصوبہ بندی اور پاکستان میں ہلاکتوں کا اعتراف ہے۔ کیا اس پر جو بائیڈن انتطامیہ کو تشویش ہے؟
اس کے جواب میں میتھیو ملر نے دیگر ملکوں کے ذکر سے گریز کرتے ہوئے فقط پاکستان کے حوالے سے نکتے پر تبصرہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ہم اس معاملے میں نہیں آنا چاہتے، تاہم ہم پاکستان اور انڈیا دونوں سے کہتے ہیں کہ تناؤ بڑھانے کے بجائے مذاکرات سے معاملات حل کریں۔‘
جب ترجمان سے پوچھا گیا کہ ماضی میں کسی ملک کی جانب سے امریکہ میں قتل کی کوششوں پر اس کے خلاف پابندیاں لگتی رہی ہیں مگر انڈیا کے معاملے میں ایسا دکھائی نہیں دے رہا، اس سہولت کی کیا وجہ ہے؟
اس پر میتھیو ملر نے کہا کہ ’میں پابندیوں کے حوالے کوئی تبصرہ نہیں کروں گا جس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے۔ جب آپ پابندیوں کی بات کرتے ہیں تو یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر کھلے عام بات نہیں کی جا سکتی۔‘
اس سوال کہ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرضے کے معاہدے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے وزیر خزانہ اس وقت امریکہ میں ہیں اور امریکی سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں، کیا امریکہ ایسے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے یا کر سکتا ہے؟
اس کے جواب میں میتھیو ملر نے موقف اپنایا کہ پچھلے مہینے پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اپنی معیشت میں بہتری لایا ہے اور ہم اس کی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔
’ہم اقتصادی اصلاحات اور اس میں توسیع کے حوالے سے پاکستانی حکومت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ملک کی اقتصادیات میں بہتری کے لیے ہماری سپورٹ غیرمتزلزل ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم پاکستان کے ساتھ تکنیکی معاہدوں کے علاوہ تجارتی اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی رابطے جاری رکھیں گے اور یہ ہمارے دوطرفہ تعلقات کی ترجیحات میں سے ہے۔‘