Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کاش کوئی عمران خان کو یہ بات بتا دیتا، عامر خاکوانی کا کالم

فروری کے الیکشن میں تحریک انصاف نے بھرپور اور جاندار قومی بیانیہ بنایا تھا (فائل فوٹو: اےا یف پی)
ذیلدار پارک اچھرہ کے ایک گھر کی صحن میں نماز عصر کے بعد معمول کے مطابق محفل جم گئی۔ یہ 70 کے عشرے کا اہم برس تھا، ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے۔ چند ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے تھے۔ 
اس دن کسی نے آنے والے عام انتخابات کا ذکر چھیڑا اور ایک اخباری خبر کا حوالہ دیا، جس کے مطابق ان انتخابات میں حکمراں جماعت دھاندلی کی تیاری شروع کر چکی ہے۔
جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا مودودی نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، یہ تو بہت پریشان کن اور خطرناک بات ہے۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے ’آپ یہ یاد رکھیں کہ ضمنی انتخابات اور عام انتخابات میں بہت فرق ہے۔ ضمنی الیکشن میں ووٹر کا وہ جوش و خروش نہیں ہوتا۔ اسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ووٹ سے کوئی تبدیلی نہیں آنی، یہی حکومت رہے گی، ایک سیٹ کی ہار جیت کچھ فرق نہیں ڈال سکتی۔ عام انتخابات میں مگر معاملہ یکسر مختلف ہوتا ہے۔ تب ووٹر پورے جوش وخروش سے باہر نکلتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اپنے ووٹ سے وہ حکومت بدل سکتا ہے، تبدیلی آ سکتی ہے۔ تب ووٹر زیادہ چارج ہوتا ہے اور اس کا جذبہ، توانائی، امید اور جوش بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ نہ سمجھیں کہ اگر ضمنی الیکشن میں دھاندلی کر دی گئی تو عام انتخابات میں بھی ایسا ہوجائے گا۔ میری یہ بات آپ لوگ یاد رکھیں کہ بھٹو حکومت نے اگر ایسا کیا تو ان کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو گا، اس کی انہیں بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی، جان تک جا سکتی ہے۔ ‘
ان کی زبان سے نکلی بات حیران کن حد تک درست اور سچی ثابت ہوئی۔ سنہ77ء کے انتخابات میں ’دھاندلی‘ پیپلزپارٹی کی حکومت کے ساتھ بھٹو صاحب کی جان بھی لے گئی۔ 
مجھے یہ واقعہ سینیئر صحافی، ایڈیٹر اور اینکر ارشاد احمد عارف صاحب نے آٹھ فروری 2024 کے الیکشن سے کچھ دن پہلے سنایا۔ ارشاد عارف صاحب کا کہنا تھا کہ حکومتیں چاہے جو کچھ کر لیں، عام انتخابات میں ووٹر بڑے جوش و خروش سے ووٹ ڈالنے نکلتا ہے کیونکہ اسے امید ہو گی کہ وہ تبدیلی لا سکتا ہے۔ جس حکومت کو پسند نہیں کرتا، اسے ہٹا کر اپنی پسندیدہ پارٹی کی حکومت لا سکتا ہے۔
 یہ بات درست ثابت ہوئی اور آٹھ فروری کو باہر نکلنے والے ووٹر نے بہت کچھ اس نے بدلنے کی کوشش کی، گو نتائج ویسے تو نہ آ سکے مگر ووٹر کی کوشش سے کم از کم ایک صوبے میں تبدیلی تو آ گئی۔
مجھے اس واقعے میں ضمنی الیکشن والا نکتہ بھی اہم لگا کہ عام انتخابات کے برعکس ضمنی انتخاب میں ووٹر کا وہ جوش و خروش اور جذبہ نہیں ہوتا۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہی حکومتیں رہیں گی اور اکا دکا سیٹیں فرق نہیں ڈال سکتیں۔

تحریک انصاف کے رہنما ضمنی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

21 اپریل کی شام میں سوچ رہا تھا کہ اڈیالہ جیل میں اسیر عمران خان کو شاید کسی نے یہ بات نہیں سمجھائی۔ وہ اور ان کے دیگر رہنما سمجھ رہے تھے کہ آٹھ فروری کی طرح ووٹر ازخود گھروں سے نکل آئے گا اور پانسہ پلٹ کر رکھ دے گا۔ ایسا مگر نہیں ہوتا اور اس بار بھی نہیں ہوا۔
تحریک انصاف کے رہنما ضمنی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ضمنی الیکشن بڑے شفاف تھے۔ ایسا نہیں۔ گجرات میں خاص کر بڑی شکایات سامنے آئیں، لاہور میں بھی کچھ مسائل تھے، وزیرآباد، شیخوپورہ، بھکر، تلہ گنگ میں بھی ہوں گے۔
حکومتی اور انتظامی مداخلت ضمنی الیکشن میں کچھ نہ کچھ ہوتی ہی ہے۔ یہ مگر حقیقت ہے یہ تحریک انصاف کا جو ووٹر آٹھ فروری کے الیکشن میں دیوانہ وار باہر نکلا تھا، اپنی مایوسی، فرسٹریشن اور ضمنی الیکشن کی وجہ سے اس کا خاصا حصہ اس بار گھر ہی سے نہیں نکلا۔
ووٹر کے اس طرزعمل کی ایک بڑی وجہ تحریک انصاف کی غلطیاں بلکہ بلنڈرز ہیں۔ ضمنی الیکشن پر تحریک انصاف نے توجہ ہی نہیں دی، اسے یوں ایزی لیا جیسے کونسلر کی سیٹ پر الیکشن ہے۔
فروری کے الیکشن میں تحریک انصاف کو کمپین نہیں کرنے دی گئی تھی، مگر اس نے مجموعی طور پر ایک بھرپور اور جاندار قومی بیانیہ بنایا اور اسی وجہ سے ووٹر باہر نکلا۔ عام انتخابات میں انصافین نے سوشل میڈیا پر کمال کر دکھایا۔ وہ پوری طرح چھائے ہوئے تھے۔
ضمنی الیکشن میں تو انہوں نے سوشل میڈیا بھی استعمال نہیں کیا۔ میرے بہت سے فیس بک فرینڈز ڈائی ہارڈ انصافین ہیں۔ فروری میں وہ دو تین ہفتوں تک مسلسل دیوانہ وار پوسٹیں کرتے رہے، اپنے حلقہ احباب کو بھی متحرک رکھا۔ اس بار تو ایک دن پہلے بھی ان لوگوں نے پوسٹ لگانے کی زحمت نہیں کی۔ 
 سچ یہ ہے کہ تحریک انصاف اس بار ماحول نہیں بنا سکی۔ انصافین رہنما خواہ مخواہ اسمبلیوں میں کھڑے سیٹیاں اور باجے بجاتے رہے۔ انہیں پنجاب آ کر لاہور، وزیرآباد، شیخوپورہ جیسی سیٹوں پر ڈور ٹو ڈور کمپین چلانی چاہیے تھی۔
Independent candidate Mubarak Zeb wins both NA-8, PK-22 seats
مبارک زیب کو  ٹکٹ نہ دینے کی غلطی پی ٹی آئی کو باجوڑ سے دونوں سیٹوں پر شکست دلوا گئی (فائل فوٹو: مبارک زیب، فیس بک)

لاہور کے حلقے بہت اہم تھے، تحریک انصاف نے ان کی اہمیت کا ادراک ہی نہیں کیا۔ خود عمران خان بھی یہ بات نہیں سمجھ سکے۔ وہ دیگر محاذوں پر الجھے رہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے نام خط لکھ ڈالا۔ انہیں اس کے بجائے ضمنی الیکشن پر اپنے ووٹر کے نام طاقتور پیغام جاری کرنا چاہیے تھا۔
تحریک انصاف کو ایک طاقتور سلوگن کے ساتھ ضمنی الیکشن میں جانا چاہیے تھا، جیسے آٹھ فروری کا بدلہ اپنے ووٹ سے لیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ کسی موٹیویشنل سلوگن کے ساتھ بیانیہ نہیں بنایا گیا۔ 
ایک اور غلطی بعض جگہوں پر ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی ہوئی۔ این اے آٹھ  باجوڑ اور پی کے 22 باجوڑ کی سیٹوں پر غلط ٹکٹ دیے گئے۔ ریحان زیب کے قتل ہونے کے بعد ان کے بھائی کو ہمدردی کا ووٹ ملنا ہی تھا۔ انہیں تحریک انصاف نے ٹکٹ کیوں نہیں دیا؟ ہر ایک کو اندازہ تھا کہ مبارک زیب کو تحریک انصاف کا ٹکٹ ملے تو یہ آسانی سے جیت جائے گا۔ انہیں ٹکٹ نہ دینے کی غلطی پی ٹی آئی کو باجوڑ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر شکست دلوا گئی۔ عمران خان کو اس کی تحقیقات کرانی چاہئیں۔
ان کی خوش قسمتی کہ جے یوآئی کے بائیکاٹ سے کوہاٹ کی صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیتنے کا موقع مل گیا، ورنہ وہ بھی پھنس سکتی تھی۔ 
لاہور میں چودھری مونس الٰہی کو ٹکٹ دینا بھی ناقابل فہم فیصلہ تھا۔ مونس الٰہی ملک سے باہر سپین میں مقیم ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ ابھی پاکستان نہیں آئیں گے۔ وہ حلف تک لینے نہیں آ سکتے تھے۔ لاہور میں جس سیٹ سے الیکشن لڑ رہے تھے، وہاں کا ووٹر بھی جانتا ہے کہ مونس الٰہی کو جتوا دیا گیا تب بھی کوئی فائدہ نہیں۔ سیٹ ضائع ہی جائے گی۔ ایسے میں ووٹر کیوں مونس کو ووٹ دینے باہر نکلتا؟

ضمنی الیکشنز ایک الگ سوچ، حکمت عملی اور طرزعمل کے متقاضی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مونس الٰہی کو اگر ٹکٹ دینا تھا تو گجرات سے دیا جاتا۔ چودھری پرویز الٰہی کی جگہ مونس الٰہی کا موسیٰ الٰہی سے جوڑ بنتا تھا۔ ویسے اگر مونس الٰہی کو رکن پارلیمنٹ ہی بنانا ضروری تھا تو انہیں سینیٹر بنوا دیتے۔ لاہور کی رِسکی سیٹ سے لڑانے کا کیا فائدہ پہنچا؟
کاش عمران خان کو کوئی بتا دیتا کہ جس طرح ایک کرکٹ گراﺅنڈ کی پِچ دوسری سے مختلف ہوتی ہیں اور ایک کی حکمت عملی دوسری جگہ پر کامیاب نہیں ہو سکتی، اسی طرح ہر الیکشن کی اپنی حکمت عملی بنانی ہوتی ہے۔ ضمنی الیکشنز ایک الگ سوچ، حکمت عملی اور طرزعمل کے متقاضی ہیں۔ خان صاحب اور ان کی پارٹی غلط کھیلی، نتیجہ بھی ان کے خلاف آیا۔اس غلطی سے سیکھ لیں گے تو آگے اچھا رہے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے جس سے اردو نیوز کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

شیئر: